تنزیہ (ہر عیب و نقص سے پاک قرار دینا) (التَّنْزِيه)

تنزیہ (ہر عیب و نقص سے پاک قرار دینا) (التَّنْزِيه)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


اللہ تعالی کو ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک اور بری قرار دینا اور اس کے صفات کمال وجمال میں اس کے ساتھ کسی اور کی مماثلت کی نفی کرنا۔

الشرح المختصر :


’تَنْزِیْہ‘ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی سے ان چیزوں کی نفی کرے جو شرعی اور عقلی طور پر اللہ کے شایانِ شان نہیں ہیں، جیسے (اللہ کا) بیٹا ہونا، (اس کا) باپ ہونا، شریک و ہمسر اور مثیل ہونا۔ ’تنزیه‘ کی حقیقت میں یہ بھی شامل ہے کہ بندہ اللہ کو ان تمام نقائص سے پاک ٹھہرائے جو کمال کے منافی ہیں۔ چنانچہ وہ اللہ کو موت، نیند اور عاجزی و ضرورت مندی غرض ہر اس شے سے بری قرار دے جس سے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبان سے اپنے آپ کو بری قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بالمقابل صفاتِ کمال کو بھی اللہ کے لیے ثابت کرے کیونکہ اللہ تعالی اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں کمال سے متصف ہے اور اس لیے کہ وہ اپنے علاوہ ہر کسی سے بالکل بے نیاز ہے۔ اللہ تعالی جس تنزیہ کا مستحق ہے اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: اللہ تعالی سے نقص و عیب کی نفی کرنا، اور یہ صفاتِ کمال کے اثبات کے لوازمات میں سے ہے۔ دوسری قسم: اللہ تعالی اپنے لیے ثابت شدہ جن صفاتِ کمال کا مستحق ہے ان میں کسی بھی چیز کی مماثلت کی نفی کرنا۔ ’معطلہ‘ کے نزدیک ’تنزیه‘ کا جو مفہوم ہے وہ ان کے گمان کے مطابق اللہ تعالی سے صفاتِ کمال کی نفی کرنا اور باری تعالی کو ان صفات سے عاری قرار دینا ہے جن سے اللہ نے اپنے آپ کو یا اس کے رسول ﷺ نے اسے موصوف کیا ہے، جیسے سمع، بصر، علم، علو اور روزِ قیامت فیصلے کے لیے آنا وغیرہ جیسی صفات۔ ان کے خیال میں جو شخص بھی ان صفات کا اثبات کرتا ہے وہ تجسیم و تشبیہہ اور تمثیل کرنے والا ہے۔ ’تنزيه‘ میں نفی کو جس گروہ نے سب سے پہلے داخل کیا وہ ’جہمیہ‘ ہیں۔ بعد ازاں معتزلہ ان کے نقش قدم پر چلے۔

التعريف اللغوي المختصر :


التَّنْزِيهُ: بری قرار دینا۔ کہا جاتا ہے:’’نَزَّهْتُ عِرْضَهُ‘‘ یعنی میں نے اس کی عزت کو عیب سے بری قرار دیا ۔ ’تَنَزُّہْ‘ کا معنی ہے ’نقائص سے دور رہنا اور بچنا‘۔ یہ دراصل ’النَّزْه‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے:’ دور ہونا‘۔