سَماع (السَّمَاع)

سَماع (السَّمَاع)


علوم القرآن التربية والسلوك

المعنى الاصطلاحي :


ہر وہ اچھی آواز جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے۔

الشرح المختصر :


السَّماعُ: ہر وہ اچھی آواز جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا اطلاق فعل کے ساتھ ساتھ مفعول پر بھی ہوتا ہے۔ ’سَماع‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: مشروع سماع: اس سے مراد اللہ تعالی کی تلاوت کی جانے والی ان آیات کا سماع ہے جنہیں اس نے اپنے رسول ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔ یہ سماع ایمان کی بنیاد ہے۔ اس کی تین انواع ہیں؛ کان کے حاسہ کے ذریعہ ادراک کا سماع، فہم و دانش کا سماع اور سمجھنے، جواب دینے اور قبول کرنے کا سماع۔ دوسری قسم : مذموم سماع، اس کی دو انواع ہیں: 1۔ لہو و طرب پر مشتمل سماع جیسے گانا اور آلات طرب (آلاتِ نَشاط) کا سماع۔ 2۔ تدین اور اللہ کے قرب کے حصول کے لیے نو ایجاد کردہ سماع جیسے صوفیوں کا صوفیانہ غزلیہ گیتوں اور اشعار کا سننا۔ اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ بدعت اور گمراہی ہے۔ کیوں کہ اللہ کا قرب صرف انہی باتوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے جو اس نے مشروع کی ہیں نہ کہ ہوائے نفس اور بدعات کے ذریعے۔ اس قسم کے سماع کی کچھ صورتیں یہ ہیں: سُر پیدا کرنا، لے نکالنا، آلاتِ لہو کا استعمال، تالیاں بجانا، جھومنا اور اس طرح کے دیگر افعال جنھیں لوگ دِین داری کے طور پر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ سامعین کو غشی (بیہوشی) اور رونے کی حد تک متاثر کرتے ہیں، اور اسی طرح متاثر ہونے کی دیگر انواع۔ یہ ذکر اور دعا میں اعتدا (حد سے تجاوز کرنے) کی بد ترین قسم ہے۔ اس طرح کے سَماع میں ان اشعار کی کثرت ہوتی ہے جو کفر اور شرک کے درجہ تک پہنچتے ہیں، جیسے رسول اللہ ﷺ کو ایسے بلند مقام پر پہنچا دینا جس کے متعلق کسی صحابی نے کوئی بات نھیں کہی ہے اور نہ ہی وہ کتاب وسنت میں موجود ہے۔ سَماع در اصل ایک نو ایجاد بدعت ہے جس کا ظہور دوسری صدی (ہجری) کے اواخر میں ہوا۔ ائمہ کی ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے، جن میں امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ شامل ہیں، نیز سَماع کی ان محفلوں میں صالحین جیسے ابن ادھم اور فُضیل رحمہم اللہ شریک نہیں ہوئے۔

التعريف اللغوي المختصر :


السَّماعُ: کان کے ذریعہ آواز کا ادراک کرنا۔ نیز اس کا اطلاق ہر اس اچھی آواز پر بھی ہوتا ہے جس سے کان محظوظ ہوتے ہیں۔