طاعون (الطَّاعُونُ)

طاعون (الطَّاعُونُ)


الفقه أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


ایک متعدی بیماری جس سے بہت جلد موت واقع ہوجاتی ہے اور جو بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔

الشرح المختصر :


طاعون: ایک پھیلنے والی بیماری اور وبا ہے جس کی وجہ سے ہوا خراب ہوجاتی ہے اور خراب ہوا انسانی مزاج اور بدن کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک متعدی اور شدید نوعیت کی جراثیمی بیماری ہے۔ اس کی بہت سی علامتیں ہیں، جن میں سے وہ پھوڑے ہیں جو بدن میں نکلتے ہیں، چنانچہ وہ بغلوں یا کہنیوں، یا ہاتھوں، یا انگلیوں اور بدن کے بقیہ حصوں میں پھیل جاتے ہیں، اس کے ساتھ سوجن اور شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔ یہ پھوڑے سوزش کے ساتھ نکلتے ہیں, اس کی وجہ سے اس کے آس پاس کی جگہیں سیاہ، یا سبز یا گدلی جامنی سُرخ ہو جاتی ہیں، اس کے ساتھ خفقانِ قلب اور اُلٹی کا عارضہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ طاعون بول کر تین چیزیں مُراد لی جاتی ہیں: 1- مذکورہ ظاہری اثر، جس کو اطبّاء بیان کرتے ہیں۔ 2- اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی ناگہانی موت۔ صحیح حدیث میں آپ ﷺ کے قول: ”الطَّاعونُ شَهادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ“ طاعون والی موت ہر مسلمان کے لیے شہادت ہے۔ (صحیح بخاری: 2675، صحیح مسلم: 1916) سے یہی مراد ہے۔ 3- اس بیماری کا فاعلی سبب۔ چنانچہ صحیح حدیث میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ”الطّاعون رِجْزٌ أو عَذابٌ أُرسِلَ على بني إسرائِيلَ، أو على مَن كان قبلكم“ کہ طاعون ایک سزا یا عذاب ہے جو بنی اسرائیل یا تم سے پہلے کے لوگوں پر بھیجا گیا... (صحیح مسلم: 2218)۔ اسی بابت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث آئی ہے: ”أنَّهُ وَخْزُ أَعْدائِكُم مِن الجِنِّ“ یعنی یہ جنوں میں سے تمہارے دشمنوں کا کچوکا (چرکا) ہے۔ اسے امام احمد نے (4/395) اور امام حاکم نے (1/50) روایت کیا ہے، امام حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے اور امام ذہبی نے اُن کی موافقت کی ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


’طاعون‘: ایک پھیلنے والی بیماری اور وبا جس سے مزاج اور جسم خراب ہو جاتے ہیں۔ وبا (متعدی بیماری) سے ہونے والی موت پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’ طُعِنَ الرَّجُلُ، فهو مَطْعونٌ وطَعِينٌ‘‘ کہ آدمی طاعون میں مبتلا ہوگیا۔