الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
ایسی موجود ذات، جس کے وجود کی کوئی ابتدا نہیں ہے اور جو ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔
لفظِ قدیم میں اجمال ہے۔ کبھی اس سے وہ چیز مراد لی جاتی ہے، جس سے پہلے کسی شے کا وجود نہ رہا ہو یا وہ معین شے مراد لی جاتی ہے، جو ہمیشہ سے موجود رہی ہو؛ تاہم اس کے وجود کی کوئی ابتدا وآغاز نہ ہو، وہ ساری اشیا سے پہلے ہو، جس نے اپنے ازلی وجود میں کسی شے کو شریک نہ بنایا ہو۔ اسی کو بالفاظ دیگر ’قِدَمِ ذاتی‘ کہتے ہیں، جو اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ خاص ہے۔ متکلمین کے قول ”جس کے وجود کی کوئی ابتدا نہ ہو“ سے یہی مراد ہے۔ اور کبھی قدیم سے وہ شے مراد لی جاتی ہے، جو کسی شے کے بعد ہو۔ ’قدیم‘ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی، جو صفتِ کمال پر دلالت کرے۔ کیوں کہ قدیم کا اطلاق دوسری شے سے پہلے والی شے پر ہوتا ہے؛ خواہ وہ حادث ہو یا ازلی۔ جب کہ اللہ کے سارے نام اچھے ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں در آ سکتی ہے۔ لفظ ’اوّل‘ جو ہمیشہ سے موجود ہونے کا معنی دیتا ہے، یہ قدیم جو مجرد سبقت کرجانے کا معنی دیتا ہے، سے کہیں زیادہ حق دار ہے (کہ اسے اسمائے حسنی میں رکھا جائے، نہ کہ قدیم کو)۔ ’أوَّلْ‘ اللہ عز وجلّ کے اسمائے حسنی میں سے ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے: ’’هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ‘‘(الحدید:۳) یعنی وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی اور وه ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔
’قدیم‘ حدیث (نئی شے) کی ضد ہے۔ قدیم اسے کہتے ہیں، جس کے وجود پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہو۔ بول چال میں قدیم کے اصل معنی ہیں سبقت کرنے والا۔ ’قِدَمْ‘ بمعنی عِتق یعنی قدیم ہونا۔ کہاجاتا ہے: ’قَدُمَ الشیءُ، قِدَمًا‘ (دال کے پیش کے ساتھ) یعنی چیز بہت پرانی ہوگئی۔ یہ حَدَثْ یعنی جدت کی ضد ہے۔ اس کی جمع’قُدَماء‘ اور ’قُدامی‘ آتی ہے۔