أحكام المسجد الحرام والمسجد النبوي وبيت المقدس
یزید بن شریک بن طارق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، چنانچہ میں نے انھیں یہ فرماتے سنا: ”اللہ کی قسم! ہمارے پاس کوئی اور کتاب نہیں جسے ہم پڑھتے ہوں، سوائے اللہ کی کتاب کے اور ان احکام کے جو اس صحیفے میں موجود ہیں“، پھر انھوں نے اسے کھولا تو اس میں: دیت میں دیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان اور کچھ زخموں کی دیت سے متعلق احکام تھے۔ اور اس صحیفے میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’مدینہ‘ عیر سے ثور تک حرم ہے، جس کسی نے اس میں بدعت ایجاد کی، یا کسی بدعتی کو پناہ دی، تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ تعالٰی اس شخص کی نہ تو توبہ قبول کرے گا اور نہ ہی فدیہ۔ مسلمانوں کا عہد و امان ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہوسکتا ہے، جس نے کسی مسلمان کے عہد کو توڑ دیا، تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ تعالٰی اس شخص کی نہ تو توبہ قبول کرے گا اور نہ ہی فدیہ۔ اور جس نے اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کی، یاجس نے اسے آزاد کیا اس کے علاوہ کسی اور کی طرف آزادی کی نسبت کی، تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے قیامت کے دن اللہ تعالٰی اس شخص کی نہ تو توبہ قبول کرے گا اور نہ ہی فدیہ۔  
عن يزيد بن شريك بن طارق، قال: رأيت عليًّا -رضي الله عنه- على المنبر يخطب، فسمعته يقول: لا والله ما عندنا من كتاب نقرؤه: إلا كتاب الله، وما في هذه الصَّحِيفَةِ، فنشرها؛ فإذا فيها: أَسْنَانُ الإبل، وأشياء من الجِرَاحَاتِ. وفيها: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «المدينة حَرَمٌ ما بين عَيْرٍ إلى ثَوْرٍ، فمن أحدث فيها حَدَثًا، أو آوى مُحْدِثًا؛ فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صَرْفًا ولا عَدْلًا. ذِمَّةُ المسلمين واحدة، يسعى بها أَدْنَاهُم، فمن أَخْفَرَ مسلما، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صَرْفًا ولا عَدْلًا. ومن ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين؛ لا يقبل الله منه يوم القيامة صَرْفًا ولا عَدْلًا».

شرح الحديث :


علی - رضی اللہ عنہ - نےمنبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! ہمارے پاس کوئی اور کتاب نہیں جسے ہم پڑھتے ہوں، سوائے اللہ عزوجل کی کتاب (قرآن) کے، مگر یہ کتاب، اور آپ نے صحیفے کو کھولا تو اس میں اونٹوں کی عمریں اور کچھ زخموں کے متعلق احکام و مسائل تھے، اور اس صحیفے میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مدینہ طیبہ بھی مکہ کی طرح حرم ہے، جبلِ عیر سے جبلِ ثور تک۔ پس یہاں جس کسی نے دین میں کوئی بدعت ایجاد کی، یا کسی بدعتی کو پناہ دی، یا وہ فتنہ وفساد اور ظلم و زیادتی سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو اس کی رحمت سے دوری کی شکل میں اور فرشتوں اور تمام لوگوں کا اس کے حق میں اللہ تعالی سے اسی لعنت پر مبنی بددعا بھی ہو، اور اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس شخص کے فرض، نفل، توبہ اور فدیہ کو قبول نہیں فرمائے گا۔ مسلمان کا کسی کافر کو عام شرائط کا خیال رکھتے ہوئے امان دینا صحیح یے، جب یہ شروط پائی جائیں تو اس میں رکاوٹ ڈالنا حرام ہے۔ جس نے کسی مسلمان کے عہد کو توڑ دیا اور اس کافر کو تکلیف پہنچایا جسے امان دیا گیاتھا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو اس کی رحمت سے دوری کی شکل میں اور فرشتوں اور تمام لوگوں کا اس کے حق میں اللہ تعالی سے اسی لعنت پر مبنی بددعا بھی ہو۔ اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس شخص کے فرض، نفل، توبہ اور فدیہ کو قبول نہیں فرمائے گا۔ اور جس نے اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کی، یا جس نے اسے آزاد کیا اس کے بجائےکسی اور کی طرف آزادی کی نسبت کی، تو اس پر اللہ کی لعنت ہو اس کی رحمت سے دوری کی شکل میں اور فرشتوں اور تمام لوگوں کا اس کے حق میں اللہ تعالی سے اسی لعنت پر مبنی بددعا ہو۔ اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس شخص کے فرض، نفل، توبہ اور فدیہ کو قبول نہیں فرمائے گا کیوں کہ اس میں نعمت کی نا شکری، وراثت، ولاء اور دیت وغیرہ کے حقوق کی تضییع و بربادی ہے، اور رشتے ناطے سے بے تعلقی و نافرمانی بھی۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية