نبينا محمد صلى الله عليه وسلم
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ بنو زریق کے ایک شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی ﷺ کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کرلیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا- ایک دن یا (راوی نے بیان کیا کہ) ایک رات نبی ﷺ میرے یہاں تشریف فرما تھے اور مسلسل دعا کر رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ سے جو بات میں پوچھ رہا تھا، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا۔ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک میرے سرہانے کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی جانب - ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو ہوا ہے - اس نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے - پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں- سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ ذرو ان کے کنویں میں۔ پھر نبی ﷺ اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا: ”عائشہ! اس کا پانی ایسا (سرخ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجورکے درختوں کے سر (اوپر کا حصہ) شیطان کے سروں کی طرح تھے“ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں“ پھر نبی ﷺ نے اس جادو کے سامان کو دفن کرنے کا حکم دیا چنانچہ اسے دفن کر دیا گیا۔  
عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: سَحَرَ رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم- رجلٌ من بني زُرَيق، يقال له لَبِيد بن الأَعْصَم، حتى كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُخَيَّل إليه أنه كان يَفْعل الشيء وما فَعَله، حتى إذا كان ذاتَ يوم أو ذات ليلة وهو عندي، لكنه دَعا ودَعا، ثم قال: «يا عائشة، أَشَعَرْتِ أنَّ اللهَ أفتاني فيما استَفْتَيْتُه فيه، أتاني رجلان، فقَعَد أحدُهما عند رأسي، والآخر عند رِجْلي، فقال أحدهما لصاحبه: ما وَجَعُ الرجل؟ فقال: مَطْبوب، قال: مَن طَبَّه؟ قال: لَبِيد بن الأَعْصَم، قال: في أي شيء؟ قال: في مِشْطٍ ومُشَاطة، وجُفِّ طَلْعِ نخلةٍ ذَكَرٍ. قال: وأين هو؟ قال: في بئر ذَرْوان» فأتاها رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في ناس من أصحابه، فجاء فقال: «يا عائشة، كأنَّ ماءَها نُقَاعَة الحِنَّاء، أو كأنَّ رءوس نخلها رءوس الشياطين» قلت: يا رسول الله: أفلا استخرجتَه؟ قال: «قد عافاني الله، فكرِهتُ أن أُثَوِّرَ على الناس فيه شرًّا» فأمر بها فدُفِنَت.

شرح الحديث :


اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ بنو زریق کے ایک شخص نے جس کا نام لبید بن اعصم ہے، رسول ﷺ پرجادوکر دیا تھا جس کی وجہ سے نبی ﷺ کسی چیزکے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ ایک دن آپ ﷺ میرے پاس موجود تھےاور کسی کام میں مشغول نہیں تھے صرف دعا کر رہے تھے اور مسلسل دعا کر رہے تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ ﷺ کے لیے معاملہ کی حقیقت کو واضح کر دیا، پھر آپ ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمالی،آپ کے پاس دوفرشتے حاضر ہوئے، ان میں سے ایک آپ کے سرکے پاس اور دوسرا پیرکے پاس کھڑا ہوا، ایک نے دوسرے سے کہا: ”ان صاحب کی بیماری کیاہے؟“ یعنی نبی ﷺ کی، جواب دیا: ”مطبوب“ یعنی جادو کیے گیے ہیں۔ کہا: ”کس نے جادوکیا ہے؟“ بتایا: لبید بن اعصم نے۔ پوچھا:کس چیز میں؟ یعنی کون سی چیز جادوکے لیے استعمال کی گئی ہے؟ جواب دیا: ”کنگھے اور سر کے بال میں، جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں“ یعنی کنگھا، آپ کے سر سے نکلے ہوئے بال اور کھجور کے خوشے میں جادو کیا گیا، پوچھا: وہ کہاں ہے؟ بتایا: ”ذروان کے کنویں میں“یہ مدینہ کا ایک کنواں ہے، نبی ﷺ اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے، پھر عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس واپس آئے اور بتایا کہ کنویں کا پانی سرخ تھا جیسے اس میں مہندی نچوڑ دیا گیا ہو یعنی اس کے پانی کا رنگ جادو کی قباحت یا جادو کی ملاوٹ کی وجہ سے بدل گیا تھا اور کھجور کے سروں کو ان کی کراہت و بد شکلی کی وجہ سے شیاطین کے سروں کے مشابہہ قراردیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نےعرض کیا: ”اے اللہ کے رسول! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا؟“ یعنی جادو کو نکالتے، لوگوں کے درمیان اسے جلاتے اورجو کچھ آپ پر گزرا ہے لوگوں کو اس سے باخبر کرتے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی ہے اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں“ یعنی اللہ نے مجھے جادو سے شفا دے دی اور میں نے لوگوں کے درمیان پھیلانا ناپسند کیا کہ ان پر برائی کا ایک دروازہ کھولوں کہ منافقین جادو کو جان کر اسے سیکھیں اور مومنوں کو اذیت و تکلیف دیں اور یہ فساد کے خوف سے مصلحت کو ترک کرنے کی قبیل سے ہے۔ نبی ﷺ نے کنویں میں اسے دفن کرنے کا حکم دیا چنانچہ اسے وہیں دفن کر دیا گیا۔ بعض لوگوں نے نبی ﷺ پر جادو کیے جانے والے قصے کا انکار کیا ہے، ان کا گمان ہے کہ اس سے عصمتِ نبی ﷺ پرحرف آتا ہے، اس احتمال کی وجہ سے کہ آپ ﷺ کو خیال ہوتا تھا کہ جبریل کو دیکھا ہے حالانکہ انہیں نہیں دیکھے ہوتے، خیال ہوتا کہ آپ ﷺ کی طرف وحی کی گئی اور وحی نہیں کی گئی ہوتی۔ یہ ساری کی ساری باتیں مردود ہیں کیوں کہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ باتوں کی حفاظت اور تبلیغ سے متعلق عصمت پر دلیل ثابت شدہ ہے۔ جادو کے ضرر کی وجہ سے آپ ﷺ کو جو تکلیف پہنچی تھی وہ تبلیغ کے سلسلے میں کسی کمی سے متعلق نہیں تھی بلکہ وہ دیگر امراض وآفات کے قبیل سے تھی جس کا صدور ممکن ہے اور جادو سے جو تکلیف آپ ﷺ کو پہنچی تھی اس کی تشریح ووضاحت اور دیگر روایات میں موجود ہے، اور وہ تکلیف یہ تھی کہ آپ ﷺ کوخیال گزرتا کہ آپ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں حالانکہ کسی بیوی کے پاس نہیں گیے ہوتے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية