تاريخ مكة والمدينة والأقصى
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺکے ساتھ بارہ غزوات میں شریک تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جو مجھے بہت ہی زیادہ پسند آئیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت دو دن ( یا اس سے زیادہ ) کا سفر اس وقت تک نہ کرے، جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی محرم نہ ہو، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دنوں میں کوئی روزہ نہیں، صبح کی نماز کے بعدسوج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہیں اور چوتھی بات یہ ہے کہ تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے شد رحال ( سفر ) نہ کیا جائے؛ مسجد حرام، مسجد اقصی اورمیری یہ مسجد۔(مسجد نبوی)۔  
عن أبي سعيد الخُدْرِي -رضي الله عنه- وكان غَزَا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ثِنْتَي عَشْرَة غَزْوَة، قال: سمعت أرْبَعا من النبي -صلى الله عليه وسلم- فَأَعْجَبْنَنِي قال: لا تسافر المرأة مَسِيرَة يومين إلا ومعها زوجها أو ذو مَحْرَم، ولا صوم في يَوْمَيْنِ: الفِطْرِ وَالأَضْحَى، ولا صلاة بعد الصُّبح حتى تَطْلُعَ الشمس، ولا بعد العصر حتى تغرب، ولا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجد الحرام، ومسجد الأَقْصَى، ومَسْجِدِي هذا.

شرح الحديث :


راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: "میں نے نبی کریمﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جو مجھے بہت اچھی لگیں۔" یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے ایک حدیث سنی، جس میں چار احکام بیان کیے گئے، جو ان کو بہت اچھے لگے تھے۔ پہلا حکم: "قال: لا تسافر المرأة مَسِيرَة يومين إلا ومعها زوجها أو ذو مَحْرَم"(آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت دو دن ( یا اس سے زیادہ) کا سفر اس وقت تک نہ کرے، جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی محرم نہ ہو۔) یعنی کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بغیر محرم کے سفرکرے۔ محرم سے مراد اس کا خاوند یا ایسے افراد ہیں، جن کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو۔ جیسے باپ، دادا، بیٹا، بھائی، چچا اور ماموں۔ دو دن کے سفر کی مقدار تقریباً اسی کلو میٹر کے برابر ہے۔ البتہ ایک اور روایت میں ہے:"لا يحل لامرأة تسافر مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم عليها" (کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر محرم کے ایک دن رات کا سفر کرے۔) ایک روایت میں ہے: "مسيرة يوم"(ایک دن کا سفر۔) ایک روایت میں ہے:"مسيرة ليلة": (ایک رات کا سفر۔) ایک روایت میں ہے: "لا تسافر امرأة مسيرة ثلاثة أيام إلا مع ذِي محرم" (کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن کا سفر بغیر محرم کے کرے۔) اور ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے: "بريدا" (ایک برید) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تحدید سے مراد اس کا ظاہر نہیں ہے۔ بلکہ جسے بھی سفر سے موسوم کیا جائے، عورت اسے بغیر محرم کے نہیں کر سکتی۔ تحدید محض الگ الگ واقعات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے، اس لیے اس کے مفہوم پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ البتہ یہ حکم اس سفر کا ہے، جو بلا ضرورت ہو۔ اگر سفر کرنا ضروری ہو تو جائز ہوگا۔ مثلا کوئی عورت دار الکفر یا دار الحرب میں اسلام قبول کر لے اور اس کو وہاں کفار کے درمیان رہنے میں جان کا خطرہ محسوس ہو، تو ایسی صورت میں اس کے لیے تنہا سفر کرنا جائز ہوگا۔ دوسرا حکم: "دو دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں؛ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔" یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے؛ چاہے روزہ کسی فوت شدہ روزے کی قضا کا ہو یا نذر کا۔ اگر کوئی ان دو دنوں میں یا ان میں سے کسی ایک دن روزہ رکھ لے، تو روزہ درست نہیں ہوگا، بلکہ جان بوجھ کر ایسا کرنے کی صورت میں گنہ گار ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے: (نهى عن صيام هذين اليومين، أما يوم الأضحى فتأكلون من لحم نسككم، وأما يوم الفطر ففطركم من صيامكم) (ان دو دنوں کے روزے سے منع کیا گیا ہے؛ ایک عیدالاضحیٰ کا کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو اور ایک عیدالفطر کا کہ اس دن تم اپنے روزے کا فطرانہ دیتے ہو۔) عیدالاضحیٰ کے دن روزے سے اس لیے منع کیا گیا ہے؛ کیوں کہ اس دن قربانی کی جاتی ہے، اور قربانیوں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ لوگوں کے لیے مشروع کیا گیا ہے کہ وہ اس دن قربانی کا گوشت کھائیں اور روزہ رکھ کر قربانی کرنے اور گوشت کھانے سے خود کو محروم نہ کریں؛ کیوں کہ یہ قربانی شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے۔ جب کہ عیدالفطر کے دن منع کرنے کا سبب خود اس کے نام سے ظاہر ہے۔ اس کے نام ہی سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ انسان اس دن افطار کی حالت میں ہو، روزے کی حالت میں نہیں۔ نیز عید کا دن رمضان اور شوال کے مہینوں کے درمیان امتیاز کرتا ہے، اس لیے اس دن روزے سے پرہیز ضروری ہے۔ تیسرا حکم: "ولا صلاة بعد الصُّبح". (فجر کے بعد کوئی نماز نہیں۔) حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد نفلی نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں ہے، لیکن یہاں ظاہری معنی مراد نہیں۔ کیوں کہ دیگر نصوص فجر کے بعد فجر کی سنتیں ادا کرنے کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ البتہ نماز فجر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں۔ اس قید کی دلیل ابو سعید رضی اللہ عنہ کی بخاری میں موجود روایت ہے: "ولا صلاة بعد صلاتين؛ بعد العصر حتى تَغرب الشمس، وبعد الصُّبح حتى تَطلع الشَّمس" (دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں؛ عصر کے بعد، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور فجر کے بعد، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے۔) مسلم کی ایک روایت میں ہے : "لا صلاة بعد صلاة الفجر"۔ (نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں۔) "ولا بعد العَصر حتى تَغرب" (اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔) چنانچہ جب انسان عصر کی نماز پڑھ لے، تو نفل نماز سے رک جائے۔ ہاں! اگر کوئی فوت شدہ نماز ہو، تو اسے ادا کرنے میں کوئی ممانعت نہیں؛ کیوں کہ واجب کو ادا کرنے میں جلدی کرنا ضروری ہے۔ چوتھا حکم: "ولا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجد الحرام، ومسجد الأَقْصَى، ومَسْجِدِي هذا" (تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے شد رحال ( سفر) نہ کیا جائے؛ مسجد حرام، مسجد اقصی او رمیری یہ مسجد۔) یعنی انسان اللہ کے قرب کے حصول کی نیت سے یا کسی خصوصیت یا فضل و شرف کی بنیاد پر، روئے زمین کے کسی بھی حصے کا سفر کرے، سوائے مذکورہ تین مساجد کے۔ ان کی طرف سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ نص حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية