صدقة التطوع
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان امانت دار خزانچی جسے کسی چیز کے دینے کا حکم دیا جائے اور وہ اس کی تعمیل کرتے ہوئے اسے پوری طرح بنا کسی کمی کے خوش دلی کے ساتھ اس شخص کو دے جسے دینے کا اسے حکم دیا گیا ہو تو اس کا شمار صدقہ کرنے والوں میں سے ہوتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے ’’ جو شخص وہ چیزیں دیتا ہے جسے دینے کا اُسے حکم دیا گیا ہو‘‘۔  
عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- أَنَّهُ قَالَ: «الخَاِزنُ المسلم الأمين الَّذِي يُنْفِذُ ما أُمِرَ بِهِ فَيُعْطِيهِ كَامِلاً مُوَفَّراً طَيِّبَةً بِهِ نَفسُهُ فَيَدْفَعُه إلى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ، أَحَدُ المُتَصَدِّقِين». وفي رواية: «الذي يُعطِي مَا أُمِرَ به».

شرح الحديث :


"الخازن'' مبتدا ہے اور ''أحد المتصدقين''خبر ہے۔ یعنی وہ خزانچی جس میں یہ چار اوصاف موجود ہوں یعنی اسلام، امانت، جس چیز کی ادائیگی کا اُسے حکم دیا جائے وہ اس کی تنفیذ کرے، اور یہ کہ جس وقت وہ خرچ کرے اور دے تو انشراح قلب، چہرے کی بشاشت اور خوشی سے دے۔ مسلمان ہونے کی قید میں کافر سے احتراز ہے۔ اگر خزانچی کافر ہو تو اسے کوئی اجر نہیں ملتا اگرچہ وہ امانت دار ہی کیوں نہ ہو اور جس بات کا اسے حکم دیا جائے اسے پورا ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ کیونکہ کفار جو اچھے اعمال کرتے ہیں ان کو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وقدمنا إلى ما عملوا من عمل فجعلناه هباء منثورا) (الفرقان: 23) ترجمہ:’’اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ومن يرتدد منكم عن دينه فيمت وهو كافر فأولئك حبطت أعمالهم في الدنيا والآخرة وأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون)۔ (البقرة:217) ترجمہ:’’تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے ایسے لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے‘‘۔تاہم نیک اعمال کرنے کے بعد اگر وہ اسلام لے آئے تو اس نے جو پہلے نیکیاں کی ہوتی ہیں ان کے ساتھ وہ اسلام لاتا ہے اور ان پر اسے اجر دیا جاتا ہے (یعنی اُس کی زمانۂ کفر کی نیکیوں کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے)۔ دوسری صفت: امانت دار۔ یعنی جس شے کی اسے امانت سونپی گئی ہو اسے وہ پورا کرے۔ مال کی حفاظت کرے، اسے خراب نہ کرے، اس میں افراط نہ برتے اور نہ ہی اس میں کوئی بے جا تصرف کرے۔تیسری صفت: جس بات کا اسے حکم دیا جائے اسے وہ بجا لائے یعنی اسے انجام دے۔ کیونکہ بعض اوقات کوئی شخص امین تو ہوتا ہے لیکن سست ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ شخص امین بھی ہے اور جس کام کا اسے حکم دیا جاتا ہے اسے پورا کرنے والا بھی ہے۔ چنانچہ اس میں قوت اور امانت دونوں صفات موجود ہیں۔ چوتھی صفت: جس بات کا اس کو حکم دیا جائے اس کی انجام دہی کے وقت اور جس شے کو دینے کا اسے کہا گیا ہو اسے دیتے وقت وہ خوش دل ہو یعنی جسے دے اس پر احسان نہ جتلائے اور نہ ہی اس پر یہ ظاہر کرے کہ وہ اس پر فضیلت رکھتا ہے بلکہ خوشدلی کے ساتھ اسے دے۔ یہ شخص صدقہ کرنے والوں میں سے گردانا جائے گا حالانکہ اس نے اپنے مال میں سے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ مثال: ایک ایسا آدمی ہو جس کے پاس مال ہو اور اس مال کا خزانچی مسلمان اور امانت دار ہو اور جو اسے حکم دیا جائے اسے وہ پورا کرے۔ خوشدلی کے ساتھ مال کو اس کے حق دار کو دے۔ جب مال کا مالک اسے کہے کہ اے فلاں! اس فقیر کو دس ہزار ریال دے دو اور وہ اس انداز میں اسے یہ دے جیسا کہ نبی ﷺ نے بیان کیا ہے تو وہ ایسے ہو گا جیسے اس نے دس ہزار ریال صدقہ کئے ہوں بغیر اس کے کہ صدقہ کرنے والے کے اجر میں اس سے کوئی کمی واقع ہو بلکہ یہ اللہ عز و جل کے فضل سے ہوتا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية