أحكام النساء
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا اور مرد نے اس پر غصہ ہو کر رات گزاری، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔"  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عليها لَعَنَتْهَا الملائكة حتى تصبح».

شرح الحديث :


اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو ہم بستری کی غرض سے بلائے تو بیوی پر لازم ہے کہ وہ اس کی اس ضرورت پوری کرے ورنہ خود کو فرشتوں کی لعنت کے حوالے کردے۔ لیکن یہ وعید اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ شوہر غصے کی حالت میں رہے جیسا کہ بخاری کی روایت میں یہ بات وارد ہے، تاہم اگر شوہر اس سے مطمئن و راضی ہو تو کوئی حرج نہیں، اسی طرح اگر کوئی شرعی عذر ہو جیسے اگر وہ اس قدر بیمار ہو کہ اس کی ازدواجی ضرورت پوری کرنے کے قابل نہ ہو یا اس کو ایسا عذر لاحق ہو جس کی بناء پر وہ ہمبستری نہ کرسکتی ہو تب بھی کوئی حرج نہیں، بصورت دیگر بیوی پر واجب ہے کہ وہ ہمبستری کے لیے تیار ہوجائے اور اس کی دعوت پر لبیک کہے اور اگر بیوی پر شوہر کا یہ حق ہو تو شوہر پر بھی ضروری ہے کہ جب وہ اپنی بیوی کی جانب سے محسوس کرے کہ وہ ازدواجی ضرورت کی خواہشمند ہے تو وہ بھی اس کی اس خواہش کو پوری کرے تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ حُسنِ معاشرت کا وہی برتاؤ پیش کرے جو بیوی نے اس کے ساتھ کیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (سورۃ النساء :19)’’ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔‘‘  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية