الغني
كلمة (غَنِيّ) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من الفعل (غَنِيَ...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو۔"
نبی مصطفیٰ ﷺ نے اس حدیث میں مفید و کارآمد شے کا ذکر فرمایا ہے تاکہ عظیم نبوی وصیت کے حامل ان امور کی اہمیت کو پرزور انداز میں پیش کیا جائے اور جس وصیت کا مضمون، ان اخلاقی اسباب و ذرائع پر مشتمل ہے کہ اگر مسلم معاشرہ، ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے تو اس معاشرہ کی بنیاد باہم پیوست اور مستحکم ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان " تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ" تو اس کا ظاہری اور مطلق معنی ہی مراد ہے کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جس کی حالتِ ایمان پر موت واقع ہو، چاہے اس کے ایمان میں کمال نہ ہو کیوں کہ بالآخر اس کا انجام کار جنت ہی ہے اور حدیث کا یہی ظاہری معنی ہے۔ رہا آپ ﷺ کا فرمان "اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو" تو اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارے ایمان میں کمال نہیں آئے گا اور تمہارے ایمان کی حالت اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔ آپ ﷺ کے فرمان "آپس میں سلام کو عام کرو" میں سلام کو عام کرنے اور (بلاتفریق) جانے اور انجانے سارے ہی مسلمانوں میں اس کو پھیلانے کی بے پناہ ترغیب دی گئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سلام ہی باہمی الفت و محبت کا سب سے اولین ذریعہ اور محبت و مودت کو پیدا کرنے کی کلید ہے۔ اس کو عام کرنے میں مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کے راز پنہاں ہیں اور ان کے اس شعار کے اظہار میں دوسری ملتوں سے ان کا امتیاز و خصوصیت نمایاں ہوجاتی ہے، نیز اس میں نفس کی تربیت، تواضع و انکساری کو اختیار کرنے اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کو عظیم تر قرار دینے کے معانی بھی پائے جاتے ہیں۔