الشاكر
كلمة (شاكر) في اللغة اسم فاعل من الشُّكر، وهو الثناء، ويأتي...
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ: ہم ایک غزوے میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ ںکلے۔ ہم چھ آدمی تھے اور ہمارے درميان ایک ہی اونٹ تھا جس پرہم باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے تھے، میرا پاؤں بھی زخمی ہوگيا تھا اورميرے ناخن گرگئے تھے۔ چنانچہ ہم لوگ اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیتے تھے۔ اسی لیے اس غزوہ كا نام ہی غزوۂ ذات الرقاع (چیتھڑوں والا غزوہ) پڑ گیا۔ کیونکہ ہم اپنے پاؤں پر چیتھڑے باندھتے تھے۔ ابوبردہ بيان كرتے ہیں کہ ابوموسی نے يہ حدیث بیان کی، پھر اسے نا پسند فرمايا اور فرمايا کہ ميں اسے بيان کرنا نہيں چاہتا تھا۔ ابو بردہ کہتے ہيں کہ: گويا انہيں يہ بات ناپسند آئی کہ اپنے کسی عمل کو ظاہر کریں۔
حدیث کا مفہوم: یہ ہے کہ ابوموسی رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے۔ ان کے ساتھ ان کے کچھ اور ساتھی بھی تھے جن کی تعداد چھے تھی۔ ان کے پاس ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے، چنانچہ ان میں سے ایک آدمی کچھ فاصلے تک اس پر سوار ہوتا، پھر جب اس کی باری ختم ہوجاتی تو وہ اونٹ سے اتر جاتا اور دوسرا اس پر سوار ہوجاتا۔ اسى طرح سے وہ باری باری سوار ہوتے رہے یہاں تک کہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ '' اس سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے تھے، میرا پاؤں بھی زخمی ہوگيا تھا اورميرے ناخن گرگئے تھے۔'' ایسا صحرائی علاقے میں ایک لمبی مسافت تک پیدل چلنے کی وجہ سے ہوا۔ پاؤں پھٹنے پر ان کے پاس کوئی ایسی چيز بھی نہیں تھی جسے وہ لپیٹ لیتے۔ چنانچہ وہ ننگے پاؤں ہی چلتے رہے جس سے انہیں بہت تکلیف ہوئی، تاہم وہ اپنے سفر سے رکے نہیں بلکہ دشمن کا سامنا کرنے کے لئے رواں دوں رہے۔ "ہم اپنے پاوں پر چیتھڑے لپیٹتے تھے۔" اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ طولِ مسافت اور زمین کی قوت وسختی کی وجہ سے ان کے جوتے پھٹ گئے تھے۔ تو وہ اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹتے تھے تاکہ زمین کی سختی اور گرمی سے انہیں محفوظ رکھ سکیں۔ "اس غزوے کا نام غزوۂ ذات الرقاع (چیتھڑوں والا غزوہ) پڑ گیا۔ کیونکہ ہم اپنے پاؤں پر چیتھڑے باندھ رکھے تھے۔" یعنی رسول اللہﷺ کے اس غزوے کا نام بعد ميں غزوہ ذات الرقاع پڑگیا۔ اور يہ اس کی ايک وجہ تسميہ ہے۔ ابوبردہ کہتے ہیں: ''ابوموسی نے يہ حدیث بیان کی، پھر اسے نا پسند فرمايا اور فرمايا کہ ميں اسے بيان کرنا نہيں چاہتا تھا! ابو بردہ کہتے ہيں: گويا انہيں يہ بات ناپسند آئی کہ اپنے کسی عمل کو ظاہر کریں۔'' اس كا مطلب يہ ہے کہ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس بات کی تمنا کی کہ کاش انہوں نے اسے بیان نہ کیا ہوتا کیونکہ اس میں خود ستائی کا اظہار ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نیک عمل کو چھپانا اس کے اظہار سے افضل ہے الا يہ کہ اس کے اظہار میں کوئی مصلحت راجحہ ہو، مثلا بیان کرنے والا ایسا شخص ہو جس کی لوگ اقتدا کرتے ہوں۔ ایک دوسرى حدیث میں ہے: "فأخفاها حتى لا تَعلم شماله ما تنفق يمينه". يعنى اس نے اسے (صدقہ کو) چھپاکر ديا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہوسکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔ متفق علیہ