البحث

عبارات مقترحة:

الظاهر

هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...

الحكيم

اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...

علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو «بسم الله» کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو «الحمد الله» کہا، اور «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون»کہا (تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہم تو اسے قابو میں کرنے کی قوت نہیں رکھتے تھے اور ہم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے)۔ پھر تین مرتبہ «الحمد الله» کہا، پھر تین مرتبہ «الله اكبر» کہا، پھر «سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» کہا یعنی ’’ تیری ذات پاک ہے۔ میں نے ہی اپنے آپ پر ظلم کیا پس تو مجھے معاف کر دے۔ کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا‘‘۔ پھر ہنسے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم کو ایک بار دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے‘‘۔

شرح الحديث :

علی بن ربیعہ ــــــــــ جن کا شمار کبار تابعین میں ہوتا ہے ـــــــــ بیان کرتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ آپ کے پاس آپ کی دابّہ (سواری) لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار ہوں۔ لغت کے اعتبار سے ''الدابة'' کا اطلاق ہر اس جانور پر ہوتا ہے جو زمین پر رینگے۔ بعد ازاں عرف عام میں اسے چوپایوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا۔ جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو کہا: (بسم الله) یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ سوار ہوتا ہوں۔ پھر جب اچھی طرح سے اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا: (الحمد لله) یعنی اس عظیم نعمت پر ساری تعریفین اللہ ہی کے لیے ہیں اور وہ نعمت یہ ہے کہ اس نے ایک نامانوس اوربدکنے والے جانور کو رام کر دیا اور اس پر سواری کے لیے اسے ہمارا فرماں بردار بنا دیا بایں طور کہ ہم اس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے (الذی سخر) کے الفاظ کے ساتھ اس کی تصریح کی۔ یعنی اس سواری کو ہمارے قابو میں کر دیا جب کہ ہم میں اسے مسخر کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ (وإنا إلى ربنا لمنقلبون۔ ثم قال) یعنی اپنے اوپر ہونے والی نعمت پر کی جانے والی مقید حمد کے بعد فرمایا۔ (الحمد لله) یعنی ایسی حمد جو کسی شے کے ساتھ مقید نہیں۔ (ثلاث مرات) بار بار ایسا کہنے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت و جلال کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ بندہ اللہ کی ویسے قدردانی نہیں کرتا جیسا کہ حق ہے۔ اسے یہ حکم ہے کہ وہ حسبِ استطاعت فرماں برداری کرتا رہے۔ (اللہ أكبر ثلاث مرات) یہ تکرار بڑائی کے بیان میں مبالغہ کے لیے ہے۔ (ثم قال سبحانك) یعنی میں تیری مطلق پاکی بیان کرتا ہوں۔ (إني ظلمت نفسي) یعنی تیرے حق کی ادائیگی نہ کر کے یا اسے اہمیت نہ دے کر اور اس میں غور نہ کر کے (میں نے اپنی جان پر ظلم کیا) کیونکہ انہیں اس نعمت عظمیٰ کی شکر گزاری میں کوتاہی دکھائی دی چاہے وہ غفلت ہی کی وجہ سے ہو۔ (فاغفر لي) یعنی میرے گناہوں کو پوشیدہ رکھ بایں طور کہ ان پر سزا دے کر مواخذہ نہ کرنا۔ (إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت) ان الفاظ میں اپنی کوتاہی کا اور اس بات کا اعتراف ہے کہ اللہ کی کرم نوازیاں بہت زیادہ ہیں۔ (ثم ضحك فقيل) یعنی ابن ربیعہ نے کہا۔ ''الشمائل'' کے ایک تصحیح شدہ نسخے میں ہے کہ میں نے پوچھا ’’ اے امیر المومنین! آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں‘‘؟ چونکہ بظاہر کوئی ایسی باعثِ تعجب بات نہیں تھی جس پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کا سبب دریافت کیا اور سوال پر ندا کو مقدم کیا جیسا کہ مخاطبت میں ادب کا تقاضا ہے۔ (قال: رأيت) یعنی میں نے دیکھا کہ (النبي صنع كما صنعت) یعنی نبی نے بھی سوار ہوتے ہوئے ان جگہوں پر ذکر کیا تھا۔ (ثم ضحك فقلت: يا رسول الله من أي شيء ضحكت) (قال: إن ربك سبحانه يعجب)۔ جب علی رضی اللہ عنہ کو(آپ کا ایسا کرنا اور پھر مسکرانا) یاد آیا تو آپ میں شکر گزاری کا جذبہ اور زیادہ پیدا ہوا اورخوش ہو کروہ مسکرانے لگے نہ کہ ان کا مسکرانا صرف آپ کی تقلید تھی بلکہ ایسا غیر اختیاری طور پر ہوا تھا اگرچہ بعض اوقات بتکلف بھی مسکرایا جاتا ہے۔ (من عبده) یہ اضافت عزت و تکریم کے لیے ہے۔ (إذا قال رب اغفر لي ذنوبي يعلم) یعنی بغیرغفلت کے وہ پوری طرح جانتا ہے کہ (أنه لا يغفر الذنوب غيري)۔ میرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية