انسانوں میں مسائل ومعاملات کو سمجھنے میں فکرونظر کا اختلاف کچھ اچنبھے کی بات نہیں اس لیے کہ ہر شخص کی سوچ او رفہم وفکر کی صلاحیتیں متفاوت ہیں مزید برآں بسا اوقات شرعی نصوص میں ایک سے زیادہ معانی کی گنجائش ہوتی ہے لہذا اختلاف واقع ہوجاتاہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اختلاف رائے میں رویہ اورانداز کیا ہونا چاہیے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف ہوئے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کیا اور نہ ایک دوسرے کو کافر وفاسق کہا، آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ اختلاف کو علمی دلائل تک محدود رکھاجائے اور کتاب وسنت کی روشنی میں ان کو حل کرنے کی سعی کی جائے لیکن اسے باہمی بغض ونفرت اور حسدو کینہ کا سبب نہ بنانا چاہیے زیرنظر رسالہ میں اسی نکتے پر زور دیا گیا ہے۔