الآخر
(الآخِر) كلمة تدل على الترتيب، وهو اسمٌ من أسماء الله الحسنى،...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ اور اَلْحَمْد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کی قرأت سے کرتے تھے اور جب رکوع کرتے تو سر کو اونچا رکھتے نہ نیچا بلکہ برابر سیدھا رکھتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے کھڑے نہ ہوجاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے نہ بیٹھ جاتے اور ہر دو رکعتوں میں التحیات پڑھتے اور بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے سے منع فرماتے اور درندوں کی طرح آدمی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر بچھا دے اس سے بھی منع فرماتے اور آپ ﷺ سلام کے ساتھ نماز ختم کرتے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا اس جلیل القدر حدیث کے ذریعے سنت کی ترویج اور علم کی تبلیغ کے لیے آپ ﷺ کی نماز کا طریقہ بیان فرما رہی ہیں کہ آپ نماز کو تکبیرِ تحریمہ سے شروع کرکے اللہ اکبر کہتے۔ اور فاتحہ سے نماز شروع کرتے، جس کی ابتدا ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ سے ہوتی ہے۔ قیام کے بعد جب رکوع کرتے تو سر نہ اٹھاتے نہ جھُکاتے، بلکہ اسے بالکل سیدھا رکھتے۔ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سجدہ کرنے سے پہلے سیدھا کھڑے ہوجاتے۔ جب سجدے سے سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے جب تک کہ بالکل سیدھا بیٹھ نہ جائے۔ ہر دو رکعت کے بعد جب بیٹھتے تو " التحيات لله والصلوات الخ " کہتے۔ آپ ﷺ جب بیٹھتے تو اپنا بائیاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے اور داہنے پاؤں کو کھڑا رکھتے۔ آپ ﷺ نے نمازی کو نماز میں شیطان کی طرح بیٹھنے سے منع فرمایا یعنی زمین پر دونوں پاؤں بچھا کر پاؤں کے ظاہری حصے کو زمین پر رکھنا اور اندرونی حصے پر بیٹھ جانا یا دونوں پاؤں کھڑا کرکے سُرین کو ان پر رکھ لینا، اسی طرح نمازی کو سجدے میں درندوں کی طرح بازو بچھانے سے منع فرمایا۔ اسی طرح آپ ﷺ نماز کو اللہ کی تعظیم اور تکبیر سے شروع کرتے اور موجودین میں سے فرشتوں اور نمازیوں اور پھر اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں اور اولین و آخرین پر سلام بھیجنے سے نماز ختم فرماتے۔ لہٰذا نمازی کو چاہیے کہ وہ اپنی دعا میں اس عموم کا لحاظ رکھے۔