الرفيق
كلمة (الرفيق) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) من الرفق، وهو...
حضرت حکم سے روایت ہے کہ ابن الاشعث کے زمانہ میں ایک آدمی (جس کا انہوں نے نام ذکر کیا تھا) نے کوفہ پر غلبہ حاصل کیا تو ابوعیبدہ بن عبداللہ رحمہ اللہ و رضی عن ابیہ کو اس نے حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں وہ نماز پڑھاتے تھے جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ میں یہ دعا پڑھ لیا کرتا ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ‘‘۔ (ترجمہ: ”اے اللہ تو اس تعریف کے لائق ہے جن سے تمام آسمان اور زمین اور جتنی جگہ تو چاہے، بھر جائے۔ تو ہی تعریف اور بڑائی کے لائق ہے جس کو تو کچھ عطا کرے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا اور جس سے تو کوئی چیز لے لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور نہ کوئی کوشش تیرے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتی ہے“)۔ حکم کہتے ہیں میں نے یہ عبدالرحمن بن ابی لیلی سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا میں نے براء بن عازب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ”رسول اللہ ﷺ کا اپنی نماز میں رکوع کرنا، اور رکوع سے سر اٹھانا پھر سجدہ کرنا اور دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا، تقریباً برابر برابر ہوتا تھا“۔شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر عمرو بن مرّہ سے کیا تو انہوں نے کہا میں نے ابن ابی لیلی کو دیکھا کہ ان کی نماز اس کیفیت کی نہ تھی۔
حدیث کا مطلب یہ ہے: " غَلَب على الكُوفة رجُل -قد سَمَّاه- زَمَنَ ابن الأشْعَث فأمر أبَا عُبيدة بن عبد الله أن يصلِّي بالناس "۔ یہ شخص مطر بن ناجیہ تھا جیسا کہ دوسری روایت میں اس کا نام لیا گیا ہے۔ اور ابو عبیدہ یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ " فكان يصلِّي، فإذا رَفع رأسه من الرُّكوع قام قَدْر ما أقُول: اللَّهُم ربَّنا لك الحَمد " اتنی مقدار قومے میں ٹھہرنا واجب ہے۔ اس کے علاوہ " مِلْء السماوات." کا اضافہ مستحب ہے اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ جب امام ’’سَمِع الله لمن حَمِدَه‘‘ کہے تو تم لوگ ’’ربَّنا لك الحمد‘‘ کہو۔ "اللهُمَّ ربَّنا لك الحَمد" کا معنی دعا اور اعتراف ہے ۔ یعنی اے اللہ ہماری دعا قبول فرما اور تیری ہدایت اور توفیق پر تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ "مِلْءُ السَّماوات ومِلْءُ الأرض" اس سے مراد مقدار اور تعدار کی کثرت اور عظمت بیان کرنا ہے کہ اے ہمارے رب تو اتنی تعریف کا مستحق ہے کہ اگر تعریف کا جسم ہوتا تو زمین و آسمان اس سے بھر جاتا۔ "ومِلْء ما شِئت من شيء بَعد" یعنی تیری وسیع بادشاہت میں سے جو ہم نہیں جانتے۔ "أهْل الثَّناء والمَجد" یعنی اے ہمارے رب تو ثناء کا مستحق ہے۔ ’ثناء‘ تعریف کو کہتے ہیں اور ’مجد‘ عظمت، سلطنت اور انتہائی شرافت کو کہتے ہیں۔ جو ذات تعریف اور مطلق تعظیم کے لائق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ "لا مانع لما أعْطَيت" یعنی تو جس چیز کو دینا چاہے وہ کوئی روک نہیں سکتا۔ "ولا مُعْطِي لما مَنعت" جسے تو اپنی حکمت اور انصاف سے محروم کرنا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ "ولا يَنفع ذَا الجَّدِّ مِنْك الجَدِّ" الجّدُّ: بمعنیٰ سخاوت یعنی مالدار کی مالداری تیرے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتی اور نہ ہی اسے عذاب سے بچا سکتی ہے اور نہ ہی ثواب کا فائدہ دے سکتی ہے۔ صرف اللہ کا ارادہ اور مشیت ہی نفع دے سکتی ہے بس۔ "قال الحَكم: فذكرت ذلك لعَبد الرحمن بن أبي ليلى فقال: سمعت البَراء بن عَازب يقول: «كانت صلاة رسول الله ﷺ وركُوعه، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وسجوده، وما بَيْن السَّجدتين، قريبا من السَّوَاء"۔ یعنی آپ ﷺ کی نماز کے ارکان کی مقدار قریب قریب تھی، تھوڑا بہت فرق ہوتا تھا۔ جب قیام طویل ہوتا تو رکوع بھی اتنا ہی طویل ہوتا، اسی طرح بقیہ ارکان ہوتے۔ اور جب قیام ہلکا ہوتا تو رکوع بھی اسی سے ملتا جلتا ہلکا ہوتا، اسی طرح باقی ارکان میں بھی ہوتا۔ یہ حدیث بعض احوال پر محمول ہے کہ آپ ﷺ کبھی کبھی نماز کو طویل کرتے۔ اسی لیے یہ حدیث بعض اوقات پر محمول ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی نماز کے ارکان مقدار میں ایک دوسرے کے قریب قریب تھے۔ آپ کا رکوع، رکوع سے اٹھنا، سجود اور سجود کے درمیان بیٹھنا (سب تقریباً یکساں ہوتے)۔ تاہم بعض اوقات قرأت کی وجہ سے قیام لمبا کر دیتے تھے۔