البحث

عبارات مقترحة:

المحسن

كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...

الكريم

كلمة (الكريم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل)، وتعني: كثير...

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ جب (تشہد میں) بیٹھ کر دعا کرتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھ لیتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے نیز اپنا انگوٹھا اپنی درمیانی انگلی پر رکھتےاور بائیں گھُٹنے کو اپنی بائیں ہتھیلی کے اندر لے لیتے (پکڑلیتے)۔

شرح الحديث :

حدیث کا مفہوم: ’’كان رسول الله إذا قَعد يَدْعُو‘‘ (رسول اللہ جب بیٹھتے تو دعا کرتے)یعنی جب تشہد کے لیے بیٹھتے۔ اس کی تائید عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ (كان إذا قَعَد للتَّشهد، وضع يَده اليُسْرَى على رُكْبتَهِ اليُسْرَى) رواه مسلم.(کہ جب آپ تشہد کے لیے بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے) امام مسلم نے اس کی روایت کی ہے۔ تشہد میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے: ’’التَّحيات لله والصلوات والطَّيبات، السَّلام عليك أيها النَّبي ورحمةُ اللهِ وبَرَكاتُہ، السَّلامُ علينا وعلى عبادِ اللهِ الصالحين‘‘۔اوراس کا نام دعا اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ یہ دعا پر مشتمل ہے جیسا کہ آپ کے فرمان میں ہے "السَلام عليك" ، "والسَلام علينا"ہے جو کہ دعا ہے۔ اور "وضع يَده اليُمْنَى على فَخِذِه اليُمْنَى، ويَده اليُسْرَى على فخِذِه اليُسْرَى"(اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اوربایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے) یعنی جب آپ تشہد کے لیے بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر پھیلا لیتے اوراسی طرح بایاں بائیں ران پر۔ ۔ہاتھ کو گھٹنے کے قریب یا گھٹنے پر یا ران پر رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ فضول حرکتوں سے بچا جاسکے۔ ہاتھ کو ران پر رکھنا یہ گھٹنوں پر رکھنے کے متضاد نہیں کیوں کہ جب ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھا جائے گا تو انگلیوں کو گھٹنوں کے ساتھ ملایا جائے گا۔ سنن نسائی میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ "وضع كَفَّه اليُسرى على فَخِذه ورُكبته اليُسرى وجعل حَدَّ مِرفقه الأيمن على فَخِذه اليُمنى"(آپ بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھتے اوراپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران پر رکھتے) اور یہ کہنا کہ : "وجعل حَدَّ مِرفقه الأيمن على فَخِذه اليُمنى" اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھتے۔جب نمازی اپنی کہنی کے کنارے کو اپنی ران پر رکھے گا تو لا محالہ انگلیوں کے کنارے گھٹنوں تک پہنچیں گے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ انگلیوں کو گھٹنوں پر یا گھٹنوں کے قریب رکھنے میں استحباب ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا عطف انگلیوں کو گھٹنوں پر رکھنے پر ہے‘‘ ۔ یہی آپ کے اس قول "ويلقم كَفه اليُسرى رُكْبَتَه" (اپنے بائیں گھٹنے کو اپنی ہتھیلی میں لے لیتے) کا معنی بھی ہے۔ اور آپ کے فرمان: "وضع يَده" (اپنے ہاتھ کو رکھتے) میں، ہاتھ سے مراد انگلیوں کے پوروں سے لے کر کہنیوں تک کا حصہ ہے۔ حدیث کے ظاہر سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ حالت چاہے پہلے تشہد میں ہو یادوسرے میں ہو دونوں ایک طرح ہیں۔"وأشَار بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَة" (اوراپنی سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کیا) ’سبابہ‘ سے مراد وہ انگلی ہے، جو انگوٹھے کے ساتھ متصل ہوتی ہے۔اس کو سبابہ اس لیے کہا گیا ہے کہ گالی گلوچ کرتے وقت اس کے ذریعہ اشارہ کیا جاتا ہے۔ اس کا نام ’مُسَبِّحَہ‘ بھی ہے کیوں کہ اس کے ساتھ اللہ کی توحید اور اس کی پاکی بیان کی جاتی ہے اور یہ تسبیح ہے۔ سبابہ انگلی سے حالت تشہد میں اشارہ کرنا صحیح احادیث سے ثابت شدہ سنت ہے۔اور مسنون یہی ہے کہ جب تشہد کے لیے بیٹھا جائے اس وقت سے لے کر تشہد سے فارغ ہونے تک اشارہ کیا جائے۔کیوں کہ حدیث کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ فرمان کہ: " كان رسول الله _ _ إذا قَعد يَدْعُو، وضع يَده اليُمْنَى على فخِذِه اليُمْنَى، ويَده اليُسْرَى على فخِذِه اليُسْرَى، وأشَار بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَة"(رسول اللہ جب بیٹھتے تو دعا کرتے، دائیں ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر اور سبابہ انگلی سے اشارہ کرتے)۔ اسی طرح صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ’’أنَّ رسولَ اللهِكانَ إذا قَعدَ في التَّشهدِ وضَعَ يَدَهُ اليُسرى على رُكْبَتِه اليُسْرَى، ووَضعَ يَده اليُمنى على رُكبته اليُمنى، وعَقَدَ ثلاثةََ وخمسينَ وأشارَ بالسَّبَّابة"(بےشک رسول اللہ جب تشہد میں بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر اور ترپن (53) کی گرہ لگاتے اور سبّابہ انگلی سے اشارہ کرتے تھے)۔ اسی طرح وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے سننِ ابی داؤد میں روایت ہے کہ "ثم جلس فافترش رِجله اليُسرى، ووضع يَده اليُسرى على فخذه اليسرى، وحَدَّ مِرفقه الأيمن على فَخذه اليَمنى، وقَبِض ثنتين وحَلَّق حَلَقة، ورأيته يقول هكذا، وحَلَّق بِشْرٌ الإبْهَام والوُسْطَى وأشار بالسَّبَّابة" (پھر بیٹھتے، اپنے بائیں پاؤں کو زمین پر بچھا لیتے، اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر رکھتے اور اپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران پر بچھا لیتے، مٹھی بند کرلیتے اور حلقہ بنا لیتے۔ میں نے دیکھا کہ اس طرح سے کہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی کے ساتھ حلقہ بنا لیتے اور سبابہ سے اشارہ کرتے)۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ کام آپ اپنے تشہد میں بیٹھنے کی ابتدا سے کرتے جیساکہ بعض دیگر روایات میں آتا ہے۔ابن باز رحمہ اللہ اور مستقل فتوی کمیٹی(سعودی عرب) کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ آپ کے فرمان: "ووضَع إبْهَامَه على إِصْبَعِهِ الوُسْطَى" (اپنے انگوٹھے کو اپنی درمیانی انگلی پر رکھتے) کا مطلب ہے کہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بناتے اور سبابہ انگلی سے اشارہ کرتے۔ یہ فرمان: "وأشَار بِإِصْبَعِهِ" (اپنی انگلی سے اشارہ کرتے) یعنی اپنی سبّابہ انگلی کےساتھ اشارہ کرتے۔ اس کو ہر حالت میں شروع سے ہی کھڑی کر لیتے تھے اور اس اشارہ میں حکمت یہ ہے کہ اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اقوال و افعال اور اعتقاد ہر ایک میں اس کی توحید کی طرف اشارہ ہے۔ مسند امام احمد میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یہ حدیث ثابت ہے کہ: "لَھِیَ أشدُّ على الشيطانِ من الحديدِ" (یہ شیطان کو لوہے سے بھی زیادہ سخت لگتی ہے)۔ آپ کےفرمان "وأشَار بِإِصْبَعِهِ" (اپنی انگلی سے اشارہ کرتے) میں حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے جب کہ اشارہ بغیر حرکت کے نہیں ہوتا۔ آپ کے فرمان "ويُلْقِم كَفَّه الْيُسْرَى رُكْبَتَه " (اپنے گھٹنے کو بائیں ہتھیلی کے نیچے لیے لیتے) کا مطلب ہے کہ آپ اپنے گھٹنے کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں داخل کر کے اس کو مضبوطی سے تھام لیتے بایں طور کہ گھٹنا ہاتھ کا لقمہ بن جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ ، گھٹنے کو پکڑے بغیر، اس پر بچھا لیں، جیسا کہ صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ "أن النبي كان إذا جلس في الصلاة وضع يديه على رُكبتيه.ويدَهُ اليُسْرى على رُكبته باسطها عليها" کہ نبی کریم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے ہاتھ کو اپنے گھٹنے پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو اپنے گھٹنے پر بچھا لیتے)۔اس بنا پر ہاتھوں کو تشہد کی حالت میں گھٹنوں پر رکھنے کے حوالے سے مسنون عمل دو طرح سے ثابت ہے۔ اس لیے (ان دونوں صورتوں) میں سے جس کو بھی اختیار کیا جائے گا سنت پر عمل ہوجائے گا۔جب کہ اولیٰ اور افضل یہی ہے کہ کبھی ایک طرح سے کر لیا جائے اور کبھی دوسری طرح کر لیا جائے اس طرح آپ سے ثابت شدہ تمام طریقوں پر عمل ہو جائے گا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية