الظاهر
هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...
ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اس وقت سوال کیا جب آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے کہ رات کی نماز کے بارے میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: دو دو رکعت کر کے (پڑھو) اور جب صبح ہونے کا خدشہ ہو تو پھر ایک رکعت پڑھ لو وہ تمہاری ساری نماز کو طاق کر دے گی۔‘‘، (ابن عمر رضی اللہ عنہما) یہ بھی فرماتے تھے کہ وتر کو اپنی آخری نماز بناؤ کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے اسی کا حکم دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ دو دو سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ نے فرمایاکہ: ’’ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے۔‘‘
حدیث کا مفہوم: " سَأل رَجُل النبي ﷺ وهو على المِنْبَر، ما تَرى في صلاة الليل " (ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اس وقت سوال کیا جب آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے کہ رات کی نماز کے بارے میں آپﷺ کیا فرماتے ہیں؟)یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو جو خاص علم عطا فرمایا ہے اس کی روشنی میں رات کی نماز کی تعداد رکعات اور ان کے وصال اور انفصال کے حوالے سے شرعی حکم کیا ہے؟ صحیحین کی ایک روایت میں ہے (كيف صلاة الليل) (رات کی نماز کیسے (پڑھی جاتی) ہے؟) فرمایا: " مَثْنَى مَثْنَى " (جوڑا جوڑا) یعنی دو ، دو رکعات۔ تکرار سے بتانے کا مقصد تاکید میں مبالغہ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ رات کی نماز کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا جائے جیسا کہ اس کی وضاحت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس طرح کی ہے۔ تاہم اس سے نمازِ وتر مستثنیٰ ہے۔اگر انسان وتر سات یا پانچ یا تین رکعات پڑھتا ہے تو انھیں ایک ساتھ پڑھے گا اور آخری رکعت میں سلام پھیر دے گا۔ " فإذا خَشْيَ الصُّبح صلَّى واحدة" (جب صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک ہی رکعت وتر پڑھے گا)۔ یعنی طلوعِ فجر کا خدشہ ہو تو پھر جلدی سے ایک رکعت پڑھ لے۔یعنی ایک رکعت پڑھ کر تشہد کرے اور سلام پھیر دے۔ "فأَوْتَرت له ما صلَّى" (اس نے جو بھی نمازی پڑھی ہے اس کو طاق کر دے گا) مطلب یہ کہ ایک رکعت کے اضافہ کے ساتھ جفت نماز طاق ہو جائے گی۔ "وإنه كان يقول" (اور وہ یہ کہتے تھے) یعنی راویٔ حدیث حضرت نافع فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ: "اجْعَلوا آخر صَلاَتِكُمْ وتْرَا "(وتر کو اپنی آخری نماز بناؤ) اور مسلم کی روایت میں ہے: " اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا "(اپنی رات کی آخری نماز کو وتر کیا کرو) اس کا مطلب ہے کہ اپنی رات کی تہجد کی نماز کو وتر کیا کرو۔ پھر ابن عمررضی اللہ عنہما اپنے قول کے بارے میں وضاحت فرماتے ہیں "اجْعَلوا آخر صَلاَتِكُمْ وتْرَا "(کہ اپنی آخری نماز کو ’وتر‘ کرو) یہ مرفوع روایت ہے ان کا اپنا اجتہاد نہیں ہے، جس کی دلیل خود ان کا یہ قول ہے " فإن النبي ﷺ أمَر به " (بے شک نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا تھا) یعنی یہ حکم دیا کہ ہم رات کی نماز کا اختتام نماز وتر سے کریں جس طرح سے کہ دن کی نمازوں کو وتر اور ان کا اختتام نمازِ مغرب کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہی مناسبت نماز وتر کی قیام اللیل کے ساتھ بھی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا ’’ما مَثْنَى مَثْنَى؟ "کہ دو دو (جوڑا جوڑا) رکعات سے کیا مرا د ہے؟ یعنی رسو ل اللہﷺ کے فرمان ’’دو دو‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی وضاحت یوں فرمائی کہ " أن تُسَلِّم في كل ركعتين " (ہر دو رکعت میں سلام پھیردے)۔ یعنی دو رکعتیں پڑھو پھر سلام پھیر دو، پھر دو رکعتیں پڑھو اور سلام پھیر دو، بغیر کسی کمی بیشی کے۔