الحافظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ، (اُمُّ المومنین) عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ(کی بیویوں) کا مہر کتنا (ہوتا) تھا؟ انہوں نے جواب دیا: اپنی بیویوں کے لیے آپ کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نَش تھا۔(پھر) انہوں نے پوچھا: جانتے ہو نش کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا: آدھا اوقیہ، بایں ہمہ یہ کل 500 درہم بنتے ہیں اور یہی اپنی بیویوں کے لیے رسول اللہ ﷺکا مہر تھا‘‘۔
حدیث کا موضوع حق مہر میں تخفیف کا استحباب ہے۔ حق مہر اگرچہ مشروع ہے لیکن بہترین حق مہر وہی ہے جس کی ادائیگی آسان ہو اور وہ عورتیں بھی بہترین ہیں جو تھوڑے حق مہر پر رضا مند ہو جاتی ہیں۔ اس حدیث میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی بیویوں کو زیادہ سے زیادہ ساڑھے بارہ اوقیہ حق مہر دیا ہے۔ رسول اللہﷺ عادات و عبادات میں کامل نمونہ ہیں۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، اس حساب سے یہ ساڑھے پانچ سو درہم بنتے ہیں۔ یہ آج کے لوگوں کے بالکل برعکس ہے جو لمبے چوڑے حق مہر باندھتے ہیں اور عورت نیز اس کے ورثاء کو جو مال ودولت دیتے ہیں اس پر فخر کرتے ہیں، خواہ خاوند غریب ہو یا امیر وہ یہی چاہتا ہے کہ اس معاملے میں وہ کسی سے پیچھے نہ رہے اور یہی شادی میں تاخیر کا سبب بن جاتا ہے۔