المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو القاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ "جس نے اپنے مملوک (غلام یا باندی) پر تہمت لگائی حالانکہ وہ اس تہمت سے بری تھا تو اسے قیامت کے دن کوڑے لگائے جائیں گے اِلاّ یہ کہ وہ ویسے ہی رہا ہو جیسے اس نے کہا تھا"۔
جب آقا اپنے مملوک پر تہمت لگا دے تو دنیا میں اس پر حد نافذ نہیں کی جائے گی کیونکہ حدود کی سزائیں اس شخص کے لیے کفارہ ہوتی ہیں جس پر وہ نافذ کی جائیں اور اس شخص کو چونکہ آخرت میں عذاب ہوگا اوراس تہمت لگانے کی وجہ سے اس پر حد جاری کی جائے گی اس لیے دنیا میں اس پر حد نافذ نہیں کی جاتی۔ دنیا میں اس پر حد کے جاری نہ کیے جانے کے بارے میں علماء کا اجماع ہے۔ آقا پر حد اس لیے نہیں لگائی جاتی کیونکہ وہ عام طور پر اپنے مملوک پر تہمت صرف اسی وقت لگاتا ہے جب اسے یقین اور غالب گمان ہو جائے کیونکہ تہمت لگانے کی وجہ سے مملوک کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور اس میں اسی کا نقصان ہوتا ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تخصیص ہے کہ ’’وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً‘‘ (النور: 4)۔ ترجمہ: ’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ نہیں لاتے تو انہیں اسّی دُرّے مارو‘‘ ۔