البحث

عبارات مقترحة:

الله

أسماء الله الحسنى وصفاته أصل الإيمان، وهي نوع من أنواع التوحيد...

المحيط

كلمة (المحيط) في اللغة اسم فاعل من الفعل أحاطَ ومضارعه يُحيط،...

الشاكر

كلمة (شاكر) في اللغة اسم فاعل من الشُّكر، وهو الثناء، ويأتي...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے آپ کو آواز دی اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا منہ پھیر لیا۔ لیکن وہ گھوم کر ایک طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) اس سے منہ پھیر لیا، حتی کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہی کلمات چار مرتبہ دہرائے۔ جب اس نے اپنے خلاف چار گواہیاں دے دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور پوچھا: کیا تم پاگل ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور سنگ سار کردو۔ ابن شہاب کہتے ہیں: مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی، جنھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: "میں ان لوگو‎‎ں میں شامل تھا، جنھوں نے اسے رجم کیا۔ ہم نے اسے عیدگاہ میں سنگ سار کیا۔ پس جب اسے پتھر لگے تو وہ بھاگ گیا، ہم نے اسے میدان حَرۃ میں پایا اور سنگ سار کردیا"۔

شرح الحديث :

ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ، نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت آپ مسجد میں تشریف فرماتھے۔ انہوں نے آپ کو آواز دی اور زنا کے ارتکاب کا اعتراف کیا۔ آپ نے ان سے اپنا چہرہ پھیر لیا۔ شاید آپ کا مقصد یہ تھا کہ وہ واپس لوٹ جائیں اور ان کے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں مخفی اس امر سے توبہ کرلیں، لیکن وہ اپنے گناہ سے سخت نالاں تھے اور حد رجم کے ذریعے خود کو پاک و صاف کرانے کا پختہ عزم لیے حاضر ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ دوبارہ آپ کے روبرو آئے اور پھر زنا کے ارتکاب کا اعتراف کیا۔ آپ نے اس مرتبہ بھی ان سے اپنا چہرہ پھیر لیا، تاآں کہ انھوں نے چار مرتبہ ارتکاب زنا کا اعتراف کیا۔ اس مرتبہ آپ اس معاملے کی تحقیق کے لیے متوجہ ہوئے اور ان سے دریافت کیا کہ تمھیں پاگل پن کی بیماری تو نہیں؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ آپ نے ان کے گھر والوں سے ان کی عقل کے بارے میں دریافت فرمایا، تو انھوں نے ان کی عقل کو درست قرار دیا۔ پھر آپ نے ماعز رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آیا وہ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ کہ وہ رجم کے حق دار نہیں ہوتے؟ انھوں نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ آپ نے ان سے دریافت کیا کہ شاید انھوں نے چھونے یا بوس و کنار کرنے جیسی حرکات کی ہوں کہ جس سے حد رجم واجب نہیں ہوتی، تاہم انھوں نے واقعتا زنا کے ارتکاب کی وضاحت کر دی۔ جب نبی نے ہر اعتبار سے معاملے کی چھان بین فرمالی اور حد رجم کے نفاذ کا وجوب ثابت ہوگیا، تو اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ انھیں لے جاکر سنگ سار کردیں۔ چنانچہ صحابۂ کرام، انھیں لے کر بقیع غرقد کی جانب نکلے -یہ نماز جنازہ کی جگہ تھی- اور انھیں رجم کرنا شروع کیا۔ جب انھیں پتھروں کی شدت محسوس ہوئی، تو اس سے بچنا چاہا اور موت سے بھاگنے کی آرزو کی؛ کیوں کہ انسانی نفس اس سزا کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ بھاگ پڑے۔ صحابہ نے انھیں مقام حرۃ (مدینے میں واقع کثرت سے پائے جانے والےسیاہ پتھروں کی سرزمین) پر آلیا اور مارنے لگے، یہاں تک کہ ان کی موت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ شانہ ان پر رحم فرمائے اور ان سے راضی ہو۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية