البحث

عبارات مقترحة:

المتين

كلمة (المتين) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل على وزن (فعيل) وهو...

الرفيق

كلمة (الرفيق) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) من الرفق، وهو...

النصير

كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں لڑ پڑیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا تو وہ اور جو اس کے پیٹ میں (بچہ) تھا ہلاک ہوگئے۔ لوگ مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ: جنین کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے، اور آپ نے فیصلہ کیا کہ عورت کی دیت اس (قاتلہ) کے عاقلہ (یعنی اقارب) کے ذمے ہے ، اور دیت کا وارث اس عورت کی اولاد اور ان ورثاء کو بنایا جو ان کے ساتھ تھے۔ حمل بن نابغہ ہذلی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس بچے کی دیت کیسے دی جائے جس نے ابھی نہ پیا نہ کھایا نہ بولا اور نہ ہی چیخا ، اس جیسے کو تو رائیگاں کیا جانا چاہئے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘یہ تو کاہنوں کے بھائیوں میں سے ہے۔‘‘ کیوں کہ اس نے ان جیسا مسجع کلام کیا ہے۔

شرح الحديث :

قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں جو کہ آپس میں سوکن تھیں جھگڑا ہوا ، ان میں سے ایک نے دوسری کو ایک چھوٹا پتھر پھینک کر مارا جس سے عام طور پر آدمی مرتا نہیں، لیکن اس نے اسے اس کے ذریعہ قتل کر ڈالا اور اس کے پیٹ میں جو بچہ تھا اسے بھی مار ڈالا. تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: جنین کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے قطع نظر اس کے کہ پیٹ میں جو بچہ ہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی اور اس کی دیت قتل کرنے والی عورت پر ہوگی۔ اور ماری گئی عورت کی دیت کا فیصلہ (اور یہ فیصلہ اس لیے دیا کیوں کہ اس قتل کا تعلق جان بوجھ کر قتل کرنے کے مشابہ تھا) دیا کہ یہ اس کے عصبہ و خاندان (اقارب) پر ہوگی کیوں کہ اس کی بنیاد آپسی تعاون اور انصاف پر تھا اور چونکہ یہ قتل جان بوجھ کر نہیں ہوا تھا۔ اور چونکہ مقتولہ کے بعد دیت اس مقتولہ کی میراث مانی جائے گی اس لئے اس کا وارث مقتولہ کی اولاد ہوگی اور اس کے ساتھ کےجو ورثاء ہونگے وہ لیں گے اور اس میں سے کچھ بھی عصبہ کو نہیں ملے گا۔ حمل بن نابغہ ہذلی نے کہا: -جو کہ قاتلہ کے والد تھے- اے للہ کے رسول! میں ایسی جان کی دیت کیوں ادا کروں جو مردہ پیدا ہوا اس نے نہ کھایا نہ پیا اور نہ ہی بولا کہ اس کا زندہ ہونا معلوم ہو سکے؟اس کو انہوں نےخطیبانہ اسلوب میں مسجع انداز سے کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا اسلوب ناگوار لگا کیوں کہ انہوں نے شریعت کے احکام کو پر تکلف اور مسجع پیرایہ میں رد کیا جو کہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانے والے کاہنوں کے انداز کے مشابہ تھا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية