البحث

عبارات مقترحة:

السبوح

كلمة (سُبُّوح) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فُعُّول) من التسبيح،...

المبين

كلمة (المُبِين) في اللغة اسمُ فاعل من الفعل (أبان)، ومعناه:...

الجميل

كلمة (الجميل) في اللغة صفة على وزن (فعيل) من الجمال وهو الحُسن،...

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! مجھے کچھ ایسے کلمات بتائیں جنھیں میں صبح شام پڑھوں"۔آپ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو: (اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالمَ الغيبِ والشهادة؛ ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهدُ أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ) ترجمہ: "اے اللہ، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے غیب و حاضر کو جاننے والے، اے وہ ذات جو ہر شے کی رب اور مالک ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر نیز شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’جب صبح کرو تب یہ (دعا) پڑھو، جب شام کرو تب بھی پڑھو اور جب اپنے بستر پر جاؤ اس وقت بھی پڑھو‘‘۔

شرح الحديث :

یہ ذکر ان اذکار میں سے ہے جنہیں صبح و شام کیا جاتا ہے اور جس کی تعلیم نبی نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دی جب انھوں نے عرض کیا کہ: "مجھے سکھائیں"۔ چنانچہ نبی نے انھیں صبح و شام کیا جانے والا ذکر اور دعا سکھائی اور ان سے کہا کہ وہ یوں کہا کریں: " اللهم فاطرَ السماواتِ والأرضِ"۔ یعنی اے اللہ، اے آسمانوں اور زمین دونوں کے پیدا کرنے والے!۔ "فاطر" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کیا اور بنا کسی پیشگی مثال کے انھیں عدم سے وجود بخشا۔ "عالم الغيب و الشهادة"۔ یعنی ان اشیاء کو بھی جانتا ہے جو مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ان کو بھی جانتا ہے جنھیں وہ دیکھتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ حال، مستقبل اور ماضی سب سے واقف ہے۔ "رب كل شئ و مليكه"۔ یعنی اے ہر چیز کے رب اور ہر چیز کے مالک!۔ اللہ تعالی ہر چیز کے رب اور مالک ہیں۔ "أشهد أن لا إله إلا أنت"۔ میں اپنی زبان اور دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ اللہ کے علاوہ جس کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے اور عبودیت میں اس کا کوئی حق نہیں۔ عبودیت کے حق دار صرف اور صرف اللہ عز و جل ہیں۔ آپ نے فرمایا: "أعوذ بك من شر نفسي"۔ کیوں کہ نفس کی شر انگیزیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي‘‘ (یوسف: 53)۔ ترجمہ: "اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے اِلاّ یہ کہ جس پر میرا رب مہربانی کرے"۔ جب اللہ آپ کو آپ کے نفس کی شر انگیزیوں سے نہ بچائے تو وہ آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور برائی پر اکساتا ہے۔ لیکن اگر اللہ آپ کو اس کے شر سے محفوظ کر دے تو آپ کو ہر نیکی کی توفیق دیتا ہے۔ نبی نے اپنی دعا کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ فرمایا: " ومن شر الشيطان وشِرْكه"۔ ایک اور روایت میں " و شَرَكه" کے الفاظ ہیں۔ یعنی آپ اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ آپ کو شیطان کے شر اور اس شرک سے پناہ دے جس پر وہ اکساتا ہے یا اس کے جال سے بچائے۔ "الشَرَک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے مچھلیاں اور پرندے وغیرہ شکار کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ شہوات و شبہات وغیرہ شیطان کے جال ہیں جن سے وہ انسانوں کا شکار کرتا ہے۔ " وأن اَقترفُ على نفسي سوءا"۔ یعنی خود اپنے آپ کے ساتھ کچھ برا کروں یا پھر کسی مسلمان کو برائی پہنچاؤں۔ نبی نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اس ذکر کو صبح و شام اور اس وقت کیا کریں جب اپنے بستر پرلیٹ جائیں۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية