المقيت
كلمة (المُقيت) في اللغة اسم فاعل من الفعل (أقاتَ) ومضارعه...
حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتیں بیان فرمائیں: ان میں سے ایک کو میں نے دیکھ لیا ہے اور دوسری کا میں انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے ہم سے بیان کیا کہ: امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ (گہرائی) میں اتری (یعنی اسے فطرت کا حصہ بنایا) پھر قرآن کا نزول ہوا اور انہوں نے اسے (یعنی امانت کو) قرآن اور سنت سے جانا۔ پھر آپ ﷺ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کا حال بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(اس طرح کہ) آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی (اٹھالی) جائے گی، چنانچہ اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی، تو اس کا نشان آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا۔ جیسے ایک انگارہ ہو، جسے تو اپنے پیر پر لڑھکائے تو اس سے چھالہ نمودار ہو جائے، چنانچہ تو اسے ابھرا ہوا تو دیکھتا ہے لیکن اس میں کوئی چیز باقی نہیں ہوتی’’۔ پھرآپ ﷺ نے ایک کنکری کو لیا اور (مثال سمجھانے کے لیے) اسے پاؤں پر لڑھکایا۔ ‘‘پس لوگ صبح کے وقت آپس میں خرید وفروخت کرتے ہوں گے لیکن کوئی امانت ادا کرنے کے قریب بھی نہ پھٹکتا ہوگا یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کی اولاد میں ایک امانت دار آدمی تھا، حتی کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط، کس قدر ہشیار اور کس قدر عقل مند ہے! حالانکہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا’’۔ (راوی حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) ‘‘بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزرچکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں، اس لیے کہ (مجھے یقین ہوتا تھا کہ) اگر مسلمان ہے تو اس کو اس کا دین مجھ پر میری چیز لوٹا دے گا اور اگر عیسائی یا یہودی ہے تو اس کا ذمے دار (نگراں) مجھے میری چیز واپس کر دے گا، لیکن آج میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی (یعنی خاص لوگوں) سے خرید وفروخت کرتا ہوں۔‘‘
یہ حديث وضاحت کرتی ہے کہ امانت لوگوں کے دلوں سے دھيرے دھيرے ختم ہو جائے گی۔ جب پہلی بار امانت کا کچھ حصہ ختم ہوگا تو اس کا نور ختم ہوجاے گا اور اس کی جگہ داغ کی طرح ایک دھندلا سا نشان رہ جائے گا یعنی پہلے رنگ کے برخلاف دوسرا رنگ چڑھ جائے گا۔ اور جب امانت کا کچھ اور حصہ ختم ہوگا تو اس کا نشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا، اوریہ ایسا مستحکم نشان ہے جو کچھ مدت کے بعد ہی ختم ہو گا، اور يہ تاريکی پہلے والی تاريکی کے اوپر ہوگی، پھر اس نور کے دل ميں پيدا ہونے کے بعد زائل ہونے کو، اور اس کے دل ميں جگہ بنانے کے بعد اس سے نکل جانے اور اس کی جگہ تاريکی کے لے لینے کو، اس انگارہ سے تشبيہ دی گئی ہے جس کو آدمی اپنے پیر پر لڑھکائے يہاں تک کہ اس کے پیر ميں اثر انداز ہونے کے بعد وہ چنگاری ٗختم ہو جائے اورصرف داغ باقی رہ جائے، اور آپ ﷺ کا کنکری لے کر اسے لڑھکانے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے لیے یہ بات خوب واضح ہو جائے۔ (فيصبح الناس) اس نيند کے بعد جس ميں امانت اٹھا لی جاے گی (لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے) تو کوئی بھی شخص امانت کے قریب بھی نہ پھٹکے گا، چہ جائے کہ وہ عملاً امانت کی ادائیگی کرے۔ (یہاں تک کہ کہا جائے گا) امانت کی برتری اور جو اس وصف سے متصف ہوگا اس کی شہرت کے لیے۔ (بے شک فلاں شخص کی اولاد میں سے ایک آدمی امین تھا) یعنی امانت دار تھا۔ (یہاں تک کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط ہے) عمل میں، (کس قدر ہشیار ہے) بمعنی مہارت و ہوشیاری اور (کس قدر عقل مند ہے) یعنی وہ انتہائی ذہین و فطین شخص ہے۔ (جب کہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا) چہ جائے کہ اس کے اندر مانت پائی جائے جو کہ ایمان کی شاخوں میں سے ہے۔ (بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزر چکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں) یعنی مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کر رہا ہوں کيوں کہ مجھے معلوم تھا کہ امانت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور یہ کہ لوگ وفادار ہیں، تو جس سے بھی ملاقات ہوتی اس کے حالات کی چھان بین کیے بغیر اس سے خرید و فروخت کر لیتا تھا اس لیے کہ لوگوں کے اندر امانت و دیانت عام تھی۔ (اور رہا آج کا وقت) تو امانت داری بہت کم باقی بچی ہے اسی لیے آپ نے کہا: (میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی سے خرید وفروخت کرتا ہوں) یعنی چند افراد سے خرید و فروخت کرتا ہوں جنہیں میں پہچانتا ہوں اور جن پر مجھے بھروسہ ہے۔ علامہ کرمانی رحمہ اللہ کہتے ہيں: امانت کے فقدان کا ظہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے ہی سے ہو چکا تھا۔