الأول
(الأوَّل) كلمةٌ تدل على الترتيب، وهو اسمٌ من أسماء الله الحسنى،...
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کتاب اللہ میں حج تمتع کے بارے میں آیت نازل ہوئی ۔ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا اور قرآن میں اس کی حرمت اور ممانعت کی کوئی دلیل نازل نہ ہوئی یہاں تک کہ آپﷺ فوت ہو گیے۔ ایک آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا کہا۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان کو عمر(رضی اللہ عنہ) کہا جاتا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے: تمتع کی آیت نازل ہوئی (یعنی حج تمتع) رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور پھر کوئی ایسی آیت بھی نازل نہیں ہوئی جوحجِ تمتع کے حکم کو منسوخ کرتی۔ اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے مرتے دم تک اس سے منع کیا تھا۔‘‘ (اور بخاری و مسلم میں اس معنی کی حدیث موجود ہے)۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ عمرہ کے ساتھ حج (حجِ تمتع) کرنے کےبارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس کو کتاب اللہ اور سنت رسول میں مشروع قرار دیا گیا ہے۔ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي﴾. ’’جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے۔‘‘ جب کہ سنت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حج تمتع کیا، اس کو برقرار رکھا ، قرآن میں اس کی حرمت پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا حتیٰ کہ رسول اللہﷺ دنیا سے چلےگیے اور یہ حکم باقی رہا اس کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ تو پھر ایک آدمی اپنی رائے سے (ممانعت کی بات) کیسے کہہ سکتا اور اس سے (کیسے) روک سکتا ہے۔؟ اس سے ان کا اشارہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف تھا جنھوں نے ایامِ حج میں اپنی اجتہاد سے اس سے منع کر دیا تھا تاکہ پورے سال زائرینِ بیت اللہ کثرت سے آتے رہیں، اس لیے کہ ان ایام میں جس تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں موسم حج کے علاوہ اس طرح نہیں آتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منع کرنا بطورِ تحریم یا کتاب و سنت پرعمل کو ترک کرتے ہوئے نہیں تھا بلکہ عمومی مصلحت کا خیال کرتے ہوئے عارضی طور پر منع کردیا تھا۔