المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک دن دوران خطبہ (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی اور اس کی کوچیں کاٹنے والے کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت ﴿إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا انْبَعَثَ﴾ تلاوت کی (اور فرمایا:) "اس کام کے لیے ایک سخت دل، طاقت ور، قبیلے کا قوی ومضبوط شخص اٹھا"۔ پھرآپ نےعورتوں کے متعلق نصیحت فرمائی۔ فرمایا: "آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے، جب کہ اس بات کا امکان رہتا ہے کہ وہ دن کے آخری حصے میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی"۔ پھر ہوا خارج ہوجانےکی وجہ سے ہنسنے پر نصیحت کی۔ فرمایا: "تم میں سے کوئی اس کام پر کیوں ہنستا ہے، جو وہ خود بھی کرتاہے"۔
عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ رسول اللہﷺ خطبہ دے رہے تھے اور وہ سن رہے تھے۔ انھوں نے دوران خطبہ آپ کو اس اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے سنا جو حضرت داؤد -على نبينا وعليه أفضل الصلاة والسلام- کو بطور معجزہ دی گئی تھی۔ آپﷺ نے دوران گفتگو اس بدبخت شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں۔ اس کا نام قذار تھا۔ وہ پستہ قد، سخت فسادی اور قوم میں اثر و رسوخ کا حامل تھا۔ پھر رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں فرمایا: "يعمد أحدكم فيجلد امرأته جلد العبد" (کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غلام کی بطور فہمائش سخت پٹائی کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ عورتوں کی ہلکی پٹائی جا سکتی ہے۔ حدیث کا سیاق ایک عقل مند کی طرف سے دو امور کے صدور کو بعید تر قرار دیا گیا ہے؛ اپنی بیوی کی سخت پٹائی بھی کرے اور اسی دن یا اسی رات مجامعت بھی کرے۔ کیوں کہ جماع اور بیوی کے ساتھ لیٹنا یہ اس وقت ہی اچھا لگتا ہے، جب رہن سہن میں ایک دوسرے کے ساتھ رغبت اور باہمی میلان ہو، جب کہ پٹائی کی شکار شخص عام طور پر اپنے شوہر سے متنفر رہتی ہے۔ اس طرح یہاں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ایک مذموم کام ہے۔ اگر مارنا ضروری ہو جائے، تو پھر ہلکی مار ماری جائے کہ باہمی نفرت کی فضا نہ پیدا ہو۔ مارنے اور ادب سکھانے میں افراط سے کام نہ لیا جائے۔ پھر (وعظهم) (ان کو نصیحت کی۔) یعنی ان کو ڈرایا۔ (ضحكهم من الضرطة) (ہوا خارج ہوجانے پر ان کے ہنسنے پر۔)کیوں کہ یہ خلاف مروت ہے اور اس میں ہتک عزت بھی ہے۔ اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا: (لِم يضحك أحدكم مما يفعل؟) (کوئی ایسے عمل پر کیوں ہنستا ہے، جسے وہ خود بھی کرتاہے؟) کیوں کہ ہنسی تو کسی عجیب وغریب بات پر آتی ہے! اگر صرف ہنسی کے آثار ظاہر ہوں، تو اسے تبسم کہا جاتاہے، اگر اس میں تھوڑی سے زیادتی ہو جائے اور ساتھ میں آواز پیدا ہو جائے، تو اس کو (ضحک) ہنسی کہا جاتا ہے اور اگر آواز بلند ہو جائے تو اسے قہقہہ کہا جاتا ہے۔ جب ریح کا خروج فطری طور پر ہر انسان سے ہوتاہے، تو اس پر ہنسنے کی کیا بات ہے؟