الحفي
كلمةُ (الحَفِيِّ) في اللغة هي صفةٌ من الحفاوة، وهي الاهتمامُ...
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے، اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ ﷺ نے مسجد میں آ کر بہت ہی لمبے قیام اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے کبھی آپ ﷺ کو ایسی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آپ ﷺ نے نماز کے بعد فرمایا: بے شک یہ نشانیاں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں آتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو، تو فوراً اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس سے استغفار میں لگ جاؤ۔
نبی ﷺ کے عہد میں جب (ایک بار) سورج کی روشنی غائب ہوگئی یا مدھم پڑ گئی، تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے؛ اس لیے کہ آپ اپنے رب کی کامل معرفت کی وجہ سے، روئے زمین پر آباد اکثر لوگوں کی گم راہی اور سر کشی کے پیش نظر سخت خوف زدہ رہا کرتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کہیں صور میں پھونک مارنے کی گھڑی نہ آجائے۔ چنانچہ آپ مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں کے ساتھ نماز کسوف ادا فرمائی۔ توبہ اور انابت کے اظہار کے لیے نماز اس قدر لمبی پڑھی کہ اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے تھے۔ پھر جب نبی مصطفیٰ ﷺ رب کی بارگاہ میں فریاد اور اس سے مناجات سے فارغ ہوئے، تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور انھیں وعظ و نصیحت کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو بندوں کی عبرت، یاد دہانی اور خوف دلانے کے لیے بھیجتا ہے؛ تاکہ وہ دعا و استغفار اور ذکر و نماز کی طرف سبقت کریں۔