البحث

عبارات مقترحة:

السلام

كلمة (السلام) في اللغة مصدر من الفعل (سَلِمَ يَسْلَمُ) وهي...

الحيي

كلمة (الحيي ّ) في اللغة صفة على وزن (فعيل) وهو من الاستحياء الذي...

الوارث

كلمة (الوراث) في اللغة اسم فاعل من الفعل (وَرِثَ يَرِثُ)، وهو من...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ جب نماز میں تکبیر تحریمہ کہتے تو قرأت کو شروع کرنے سے پہلے کچھ دیر سکوت فرماتے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ بتائیں کہ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے مابین سکتہ میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ’’اللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ۔ اللهم اغسلني من خَطَایَایَ بِالْمَاء وَ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ‘‘۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جس طرح مشرق و مغرب میں دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے‘‘۔

شرح الحديث :

نبی جب نماز کے لیے تکبیرِ تحریمہ کہتے تو سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے کچھ دیر اپنی آواز کو پست رکھتے۔ صحابہ کرام جانتے تھے کہ آپ اس سکتے میں کچھ پڑھتے ہیں۔ انہیں یہ علم یا تو اس وجہ سے تھا کہ نماز ساری کی ساری ذکر ہے اور سماعت (قرآن) کےعلاوہ اس میں کوئی خاموشی نہیں ہوتی، یا پھر آپ کی حرکت کی وجہ سے معلوم ہو جاتا کہ آپ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ چونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حصول علم اور سنت کو سیکھنے کے بہت حریص تھے اس لیے انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ تکبیرتحریمہ اور قرأت کے درمیان والے سکتے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ’’ اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي، كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد‘‘۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جس طرح مشرق و مغرب میں دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے‘‘۔ یہ دعا اس اعلیٰ مقام مناجات سے بہت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے کیونکہ نمازی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس غرض سے کہ وہ اس کے گناہ مٹا دے اور اس کے اور گناہوں کے مابین اتنا فاصلہ پیدا کر دے کہ وہ ایک دوسرے سے مل ہی نہ سکیں جیسا کہ مشرق و مغرب کبھی ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے اور یہ کہ وہ اس کے گناہوں اور خطاؤں کو ختم کر دے اور اسے ان سے پاک صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے سے گندگی صاف کی جاتی ہے اور یہ کہ وہ اس سے اس کی خطائیں دھو دے اور ان کی لپٹ اور تپش کو ان ٹھنڈی صفائی کرنے دینے والی اشیاء یعنی پانی، برف اور اولوں سے ٹھنڈا کر دے۔ یہ ایسی تشبیہات ہیں جن میں بہت ہی زیادہ مطابقت پائی جاتی ہے۔ اس دعا کے ساتھ وہ گناہوں کے آثار سے خلاصی پا لے گا اور بہترین حالت میں اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا۔ اور بہتر یہ ہے کہ انسان ان تمام افتتاحی کلمات (ثنا کی دعاؤں) کو پڑھے جو صحیح احادیث میں آئے ہیں۔کبھی کسی کو پڑھ لے اور کبھی کس کو۔ اگرچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ و اللہ اعلم۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية