الوتر
كلمة (الوِتر) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، ومعناها الفرد،...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا۔ آپﷺ نے انھیں بتایا کہ یہ ایک عذاب تھا، جسے اللہ تعالی جس پر چاہتا، نازل کردیتا۔ تاہم ایمان والوں کے لیے اللہ تعالی نے اسے رحمت بنا دیا۔ چنانچہ جو شخص بھی طاعون کے مرض میں مبتلا ہوا اور صبر اور اجر و ثواب کی نیت رکھتے ہوئے وہ اپنے علاقےمیں ہی مقیم رہا، اس یقین کے ساتھ کہ اسے صرف وہی تکلیف پہنچے گی، جو اللہ نے اس کے لئے لکھ رکھی ہے، تو اسے شہید کے اجر کے مساوی اجر ملے گا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺ نے انھیں بتایا کہ طاعون ایک عذاب ہے، جسے اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، نازل کر دیتا ہے۔ چاہے یہ معین طاعون ہو یا پھر عام وبا ہو، جیسے ہیضہ وغیرہ؛ طاعون اللہ عز و جل کا بھیجا ہوا عذاب ہے۔ لیکن یہ مؤمن کے لیے رحمت ہے، بایں طور کہ یہ کسی کے علاقےمیں پھیل جائے اور وہ صبر کا دامن تھام کر، اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے، اس یقین کے ساتھ اسی علاقے میں رہے کہ اسے وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے، جو اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھی ہے، تو اللہ تعالی اس کے لیے شہید کے برابر اجر لکھ دیتا ہے۔ اسی لیے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جب تمھیں یہ معلوم ہو کہ کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی علاقےمیں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں ہو، تو اس سے بچنے کے لیے وہاں سے نہ نکلو"۔ جب کسی جگہ طاعون پھیل چکا ہو، تو وہاں ہم نہیں جائیں گے؛ کیوں کہ وہاں جانا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ تاہم جب وہ کسی علاقے میں پھیل چکا ہو، تواس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ہم وہاں سے نہیں نکلیں گے۔ کیوں کہ اللہ کی طرف سے مقدر کردہ شے جب زمین پر نازل ہوجائے، تو آپ اس سے جتنا بھی بھاگ لیں، آپ کا یہ بھاگنا اللہ کےمقابلے میں آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا؛ کیوں کہ اللہ کی قضا سے سوائے اس کی ذات کے اور کوئی مفر نہیں ہے۔ طاعون پر صبر کرنے والے اور اجر و ثواب کی امید رکھنے والے شخص کو شہدا کا درجہ حاصل ہونے کا راز یہ ہے کہ جب انسان کے علاقے میں طاعون پھیلتا ہے، تو اس کے لیے جان قیمتی ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ اس سے بھاگ اٹھے گا اور طاعون سے خوف زدہ ہو جائے گا۔ تاہم اگر وہ صبر کرے، وہیں مقیم رہے اور اجر کی امید رکھے اور یقین کر لے کہ اسے صرف وہی مصیبت لاحق ہو گی، جسے اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھا ہے اور پھر اس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو جائے، تو اس شخص کے لیے شہید کے مساوی اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ اللہ عز و جل کی طرف سے ایک نعمت ہے۔