المليك
كلمة (المَليك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعيل) بمعنى (فاعل)...
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور جہاں تک کی زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک عنقریب میری امت کی سلطنت وحکومت پہنچ کر رہے گی۔اور مجھے سرخ اورسفید دو خزانے عطا کئے گئے اورمیں نے اپنے رب سےاپنی امت کے لیے دعا مانگی کہ وہ انہیں عمومی قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور اپنےعلاوہ ان پر کوئی ایسا دشمن بھی مسلط نہ کرے جو ان سب کی جانوں کی ہلاکت کو مباح سمجھے۔ میرے رب نے فرمایا: اے محمد! جب میں کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہوں تو اسے تبدیل نہیں کیا جاتا اور بے شک میں نے آپ کی امت کے لیے فیصلہ کرلیا ہے کہ انہیں عام قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کروں گا اور نہ ہی ان کے علاوہ ان پر ایسا کوئی دشمن مسلط کروں گا جوان سب کی جانوں کو مباح وجائز سمجھ کر انہیں ہلاک کر دے اگرچہ ان کے خلاف زمین کے چاروں اطراف سے ہی لوگ جمع کیوں نہ ہو جائیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو خود ہی قیدی بنائیں گے۔ امام برقانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اوراس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ (حکمران، علماء اور پیشواؤں) کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑی گی تو قیامت تک نہیں رکے گی۔ اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ میری اُمت کا ایک قبیلہ مشرکین کے ساتھ نہ مل جائے اور یہاں تک کہ ان میں سے کچھ گروہ وہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب اٹھیں گے جن میں سے ہرایک کا یہی دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ انہیں چھوڑے والا انہیں کوئی نقصان نہیں دے سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آن پہنچے گی‘‘۔
یہ ایک بہت جلیل القدر حدیث ہے جس میں بہت سے اہم امور اور سچی خبریں ہیں۔ نبی صادق و مصدوق ﷺ اس حدیث میں خبر دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے ساری زمین کو سمیٹ دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے مشرق بعید سے لے کر مغرب بعید تک وہ سارا علاقہ دیکھ لیا جو آپ ﷺ کی امت کی ملکیت میں آئے گا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جس کا مصداق وجود میں آ چکا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کا دائرہ اقتدار اتنا وسیع ہوا کہ وہ مغرب بعید سے لے کر مشرق بعید تک پھیل گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کو دو خزانے دیے گئے۔ آپ ﷺ نے جیسے بتایا ویسے ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کو کسری و قیصر کی سلطنت پر غلبہ حاصل ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ سونا و چاندی اور جواہرات بھی ان کے ہاتھ آئے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ نے اپنے رب سے اپنی امت کے حق میں دعا کی کہ وہ انہیں کسی عمومی قحط سے ہلاک نہ کرے اور یہ کہ کفار میں سے ان پر کوئی ایسا دشمن نہ مسلط کر دے جو ان کے علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں بیخ و بن سے اکھاڑ دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ان کی پہلی دعا قبول کر لی اور دوسری بھی جب تک کہ امت اختلافات و تفرقہ اور باہمی لڑائے جھگڑے سے پرہیز کرتی رہے گی۔ جب یہ سب کچھ ہونے لگ جائے گا تو پھر اللہ ان پر کفار میں سے دشمن کو مسلط کر دے۔ جب امت تفرقے کا شکار ہو گئی تو یہ سب کچھ بھی واقع ہو گیا۔ آپ ﷺ نے امت کے سلسلے میں حکام اور خود گمراہ اور گمراہ کن علما کے خوف کا اظہار کیا۔ کیونکہ لوگ بھی ان کے گمراہی میں ان کی اقتدا کریں گے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ جب امت میں فتنہ اور قتل و غارت گری کا آغاز ہو جائے گا تو پھر یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ سب کچھ ویسے ہی ہو چکا ہے جیسے آپ ﷺ نے خبر دی۔ جب سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے فتنہ پیدا ہوا ہے تب سے لے کر آج تک ویسے ہی جاری ہے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ کی امت کے بعض لوگ مشرکین کے علاقوں میں چل جائیں گے اور ان کا دین اختیار کر لیں گے اورامت کے کچھ گروہ شرک کی طرف راغب ہو جائیں گی۔ یہ سب کچھ جیسے آپ ﷺ نے بتایا ویسے ہو چکا ہے۔ چنانچہ قبروں، درختوں اور پتھروں ساری چیزوں کی پوجا کی گئی۔ آپ ﷺ نے نبوت کے دعوے دار ظاہر ہونے کے خبر دی اور فرمایا کہ جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہوگا کیونکہ آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔آپ ﷺ نے خوشخبری دی کہ آپ ﷺ کی امت میں سے ایک گروہ اسلام پر قائم رہے گا حالانکہ بہت الم ناک واقعات اور مصائب کا ظہور ہو گا اور یہ کہ یہ گروہ باوجود اپنی قلت کے اپنے دشمنوں اور مخالفین سے بالکل بھی زک نہیں اٹھائے گا۔