الشهيد
كلمة (شهيد) في اللغة صفة على وزن فعيل، وهى بمعنى (فاعل) أي: شاهد،...
ابو ذر رضی الله عنہ سے روایت ہےکہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ ﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ”ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ (امارت) امانت ہے، قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہوگی، سوائے اس شخص کے، جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس نے متعلقہ ذمہ داری جو اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا“۔
ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے بطورِ خاص انہیں حکومت اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بارے میں نصحیت فرمائی۔ ایسا اس وقت ہوا جب ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے کہا کہ آپ ﷺ انہیں کوئی حکومتی ذمہ داری سونپیں۔ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: "تم کمزور ہو"۔ اس بات میں گو کہ کچھ سختی ہے لیکن امانت کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کو اس کے بارے میں بالکل صراحت کے ساتھ بتا دیا جائے کہ وہ کیسا ہے۔ اگر وہ قوی ہے تو قوی اور اگر کمزور ہے تو کمزور۔ اس میں دلیل ہے کہ حکومتی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان قوی اور امین ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "یہ امانت ہے"۔ اگر وہ قوی اور امین ہو تو یہ صفات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ امیر اور حاکم بننے کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اگر قوی تو ہو لیکن امین نہ ہو یا پھر امین ہو لیکن قوی نہ ہو یا پھر کمزور بھی ہو اور امین بھی نہ ہو تو ان تینوں اقسام کی کمزوریوں کے مالک شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ حکمران بنے۔چنانچہ اس بنا پر ہم قوی شخص کو حکمرانی سونپتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔ لوگوں کو اقتدار اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر قوت نہ ہو خاص طور پراس وقت جب دین بھی کمزور ہو تو اس صورت میں معاملات بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ حدیث حکومتی ذمہ داریوں کو لینے سے اجتناب کرنے کے بارے میں ایک بنیاد ہے خاص طور پر اس شخص کے لیے جس میں اس حکومتی ذمہ داری کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں کمزوری پائی جائے۔ جہاں تک اُس رسوائی اور ندامت کا تعلق ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ قیامت کے روز رسوائی اور ندامت کے سوا کچھ نہ ہو گی"۔ تو یہ اس شخص کے حق میں ہے جو اس حکومتی ذمہ داری کا اہل نہ ہو۔ یا پھر اہل تو ہو لیکن وہ اس میں انصاف نہ کرے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالی قیامت کے دن ذلیل اور رسوا کر دے گا اور وہ اپنی کوتاہی پر نادم ہو گا۔ جب کہ وہ شخص جو حکومتی ذمہ داری کا اہل ہو اور وہ اس میں انصاف بھی کرے تو یہ وعید اُس پر صادق نہیں آئے گی۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے استثناء کرتے ہوئے فرمایا: "ماسوا اس شخص کے جس نے اس کا اہل ہونے کی وجہ سے اسے لیا اور اس کے بارے میں اس پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی اسے پورا کیا"۔ کیونکہ جو اس کا اہل ہو اس کی بہت فضیلت ہے جس کا ذکر بہت سی صحیح احادیث میں آیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ: "سات لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ اپنے سایہ میں جگہ دے گا"(جس میں انصاف کرنے والا حاکم بھی ہے)۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ: "عدل کرنے والے نور کے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے"۔ وغیرہ۔