المؤخر
كلمة (المؤخِّر) في اللغة اسم فاعل من التأخير، وهو نقيض التقديم،...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کيا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جسے اگر میں کرتا رہوں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز قائم کرو، فرض زکوٰة کی ادائيگی کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ اس دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ پھير کر چلا تو نبی کريم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو کوئی جنتی ديکھنا پسند ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بيان كر رہے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ ﷺ اس کی رہنمائی کسی ایسے عمل کی طرف فرمائیں جو اسے جنت میں لے جائے۔ نبی ﷺ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جنت کا داخلہ اور دوزخ سے چھٹکارا ارکان اسلام کی ادائیگی پر موقوف ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔” لا إله إلا الله کی شہادت کا معنی یہی ہے اور یہ ارکان اسلام میں سے سب سے پہلا رکن ہے کیونکہ اس کا معنی ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اس کا تقاضا اللہ کو عبادت میں منفرد ویکتا ماننا ہے بایں طور کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور یہ کہ آپ اس کے ساتھ کسی بھی چيز کو شریک نہ ٹھہرائيں۔‘‘ ’’اور نماز قائم کرو‘‘ یعنی وہ پانچ نمازیں بشمول نماز جمعہ کے جنہيں اللہ نے ہر دن ورات ميں اپنے بندوں پر فرض کیا ہے انہیں قائم کرو۔ ’’اور فرض زکوۃ ادا کرو‘‘ یعنی وہ شرعی زکوۃ ادا کرو جسے اللہ نے تم پر فرض کیا ہے اور اسے اس کے حق دار تک پہنچاؤ۔ ’’اور رمضان کے روزے رکھو‘‘ یعنی رمضان کے روزوں کی ان کے وقت میں پابندی کرو۔ ’’اس نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا‘‘ یعنی میں نے آپ سے جو فرض اعمال سنے ہیں ان پر میں کسی بھی اور نیکی کا اضافہ نہیں کروں گا۔ مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: ’’اور نہ ہی ان میں کچھ کمی کروں گا۔‘‘ ’’جب وہ پیٹھ پھير کر چلا تو نبی کريم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو کوئی جنتی ديکھنا پسند ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘ یعنی اسے چاہیے کہ وہ اس اعرابی (ديہاتی) کو دیکھ لے کيونکہ اگر یہ میرے حکم کردہ اعمال پر ہميشگی برتے گا تو یہ جنتيوں ميں سے ہوگا۔ کیونکہ مسلم شریف میں ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نےفرمایا: ’’جس بات کا اسے حکم دیا گیا ہے اگر یہ اس کی پابندی کرتا رہے گا تو جنت ميں جائے گا۔‘‘ اس حدیث میں بیت اللہ کے حج کا ذکر نہیں ہے باوجود اس کے کہ یہ اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ابھی حج فرض نہیں ہوا تھا۔ حاصل یہ کہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے اللہ کی فرض کردہ پانچ نمازوں کی ادائیگی کی، رمضان کے روزے رکھے، زکوۃ ادا کی اور اس کے ساتھ ساتھ حرام چیزوں سے اجتناب کرتا رہا وہ جنت میں جانے اور دوزخ سے نجات پانے کا حق دار ہوگیا۔