البحث

عبارات مقترحة:

المعطي

كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...

العليم

كلمة (عليم) في اللغة صيغة مبالغة من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...

البارئ

(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...

طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نجد کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سن رہے تھے، لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دن رات میں پانچ نمازیں پڑھی جائیں"۔ اس نے کہا: کیا ان کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پرفرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، مگریہ کہ تو نفل پڑھے"۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور رمضان کے روزے رکھنا" اس نے کہا: کیا اس کے علاوہ بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" نہیں، مگر یہ کہ تو نفل روزے رکھے"۔ طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کے بارے میں بیان کیا۔ وہ کہنے لگا کہ اور کوئی صدقہ مجھ پر ہے یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے"۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر یہ کہتے ہوۓ چل پڑا کہ، قسم اللہ کی !میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔"

شرح الحديث :

نجد کا ایک شخص نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بال پراگندہ و بکھرے ہوئے تھے اور کی آواز بہت اونچی تھی، جس کی بنا پر صحابۂ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی، یہاں تک کہ وہ نبی کے نزدیک پہنچ گیا اور آپ سے اسلام میں داخل ہونے کے بعد بندۂ مومن پر عائد ہونے والی شرعی تکالیف و احکام کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ نبی نے سب سے پہلے نماز کا ذکر فرمایا اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔ اس نے دریافت کیا کہ: آیا ان پانچ نمازوں کے علاوہ کچھ اور نمازیں بھی مجھ پر لازم ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ان پانچ نمازوں کے علاوہ تم پر کوئی اور نماز لازم نہیں۔ -خیال رہے کہ فرض نمازوں میں نماز جمعہ شامل ہے؛ کیوں کہ وہ دن اور رات کی نمازوں میں سے ہے- الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تم پر عائد کردہ واجبات کے علاوہ نفل کے طور پر کچھ زیادہ کرلو تو یہ تمھارے حق میں کار خیر ہوگا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم پر عائد کردہ واجبات میں سے ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے۔ اس شخص نے دریافت کیا کہ آیا مجھ پر رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ بھی کچھ مزید روزے لازم ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے علاوہ تم پر کوئی اور روزے فرض نہیں۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ تم پیر اور جمعرات، شوال کے چھ روزے اور عرفہ کا روزہ جیسے کچھ نفلی روزے رکھو۔ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔ پھر آپ نے اس سے زکاۃ کی بابت ذکر کیا، تو اس شخص نے دریافت کیا: آیا مال زکاۃ نکالنے کے بعد مجھ پر کچھ اور دیگر صدقات لازم ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: زکاۃ کے علاوہ تم پر کوئی اور صدقہ واجب نہیں، سوائے یہ کہ تم اپنی جانب سے غیر واجب کچھ نفلی صدقات خیرات کرو، تو یہ تمھارے حق میں خیر وبھلائی کا ذریعہ ہوں گے۔ نبی کریم کی جانب سے بیان کردہ ان شرعی تکالیف و احکام کو سننے کے بعد واپس لوٹتے ہوئے اس شخص نے اللہ کی قسم کھائی اور کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عائد کردہ ان واجبات پر بلاکم و کاست عمل پیرا رہے گا۔ رسول اللہ نے اس کے بعد فرمایا: اگر یہ شخص اپنے حلفیہ و قسمیہ بیان میں کھرا و سچا ثابت ہوا، تو یقینا بامراد و کامران ہوگا۔ اور اللہ جل و علا کی جانب سے اس پر عائد کردہ واجبات کو بجالاکر فلاح و کامرانی کے سبب کو اختیار کرنے والا ہوگا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية