الحافظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...
عقبہ بن عامر - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: عنقریب علاقے تمہارے لئے فتح کردیئے جائیں گے اور(دشمنوں کے مقابلے میں) اللہ تمہارے لئے کافی ہو جائے گا چنانچہ تم میں سے کوئی بھی اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے۔
نبی ﷺ اپنے صحابہ کو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب علاقے بغیر لڑے ان کے لئے فتح ہوجائیں گے۔ چنانچہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تیر اندازی سیکھنے میں سستی نہ کریں۔ یہ وہ سب سے بہترین مشغلہ ہے جس میں مسلمانوں کو مصروف رہنا چاہیے جب تکہ کہ اس میں کسی حقِ واجب کا ضیاع نہ ہو کیوں کہ یہ ایک ایسی شے ہے جو جہاد فی سبیل اللہ مین معاون ہوتی ہے جو کہ نہایت افضل مقصد اور بلند مرتبہ غایت ہے۔ "لہو" کا لفظ استعمال کیا گیا کیوں کہ دلوں میں فطری طور پر لہو و لعب کی محبت ہوتی ہے چنانچہ پیرایۂ تعبیر میں اس لفظ کو استعمال کیا گیا ورنہ تیر اندازی سیکھنے کا سب سے بڑا مقصد تو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کرنا ہے نہ کہ محض لہو و لعب۔