الأحد
كلمة (الأحد) في اللغة لها معنيانِ؛ أحدهما: أولُ العَدَد،...
عمر بن تغلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کچھ مال یا قیدی لائے گئے، جسے آپ نے تقسیم کردیا۔ کچھ لوگوں کو آپ نے ان میں سے دیا اور کچھ کو نہیں دیا ۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن کو نہیں دیا، انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: "اما بعد۔ اللہ کی قسم ! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ جب کہ جسے میں چھوڑ دیتا ہوں وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہوتاہے، جسے میں دیتا ہوں ۔میں کچھ لوگوں کے دلوں میں جو بے صبری پاتاہوں، اس کی وجہ سے انہیں دیتاہوں اور کچھ لوگوں کو اس بے نیازی اور بھلائی کے سپرد کردیتا ہوں، جو اللہ نے ان کے دلوں میں رکھی ہے ۔ عمرو بن تَغلِب انہی لوگوں میں سے ہیں" ۔ عمرو بن تَغلِب کہتے ہیں کہ : اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس بات کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ مل جائیں ۔ (یعنی آپ کی یہ بات مجھے سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی زیادہ پسند ہے)۔
عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال یا قیدی لائے گئے۔ "سبی" سے مراد دشمن کے وہ قیدی ہیں، جنہیں جنگ میں گرفتار کرکے غلام باندی بنا لیا جاتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تقسیم کردیا۔ کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہیں دیا؛ یعنی کچھ لوگوں کو ان کی تالیف قلب کے لیے دیا اور کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے جو قوت ایمانی اور یقین عطا کیا تھا، اس پر اعتماد کرتے ہوئے دیے بغیر ہی چھوڑ دیا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی کہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا، انھوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی انھوں نے آپس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پرکچھ ناگواری کے انداز میں باتیں کیں، یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ان کے کسی خاص دینی امتیاز کی وجہ سے دیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جمع کرکے خطبہ دیا۔ اللہ تعالی کے شایان شان حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: "اللہ کی قسم! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کودیے بغیرہی چھوڑ دیتاہوں۔ جسے میں دیے بغیر چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہے، جسے میں دیتاہوں" ۔ یہ مراد نہیں کہ جب بعض لوگوں کو دوں اور بعض کو نہ دوں، تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ میں دوسروں کے مقابلے میں، ان سے محبت کرتا ہوں۔ بلکہ جن کو میں دیے بغیر چھوڑ دیتاہوں، وہ مجھے ان لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں، جنھیں میں دیتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کودینے اور بعض کو نہ دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں بعض لوگوں کو ان کے دلوں میں پائی جانے والی بےصبری اور پریشانی کی وجہ سے دیتا ہوں، جو انہیں اس وقت لاحق ہوتی ہے، جب انھیں مال غنیمت میں سے حصہ نہ دیا جائے۔ چنانچہ میں ان کی تالیف قلب اور انھیں خوش کرنے کے لیے دیتا ہوں۔ "بعض لوگوں کو میں اس بے نیازی کے حوالے کردیتا ہوں، جو اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رکھی ہے"۔ یعنی کچھ لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی نے جو قناعت اور بے نیازی رکھی ہے، انھیں اس کے سپرد کرتے ہوئے نہیں دیتا۔ "بھلائی" سے مراد قوت ایمان و یقین ہے۔ "عمرو بن تغلب انہیں لوگوں میں سے ہیں"۔ یعنی وہ لوگ جن کے ایمان پر تکیہ کرتے ہوئے میں انھیں نہیں دیتا، ان میں سے ایک "عمرو بن تغلب " ہیں ۔ ایک اور حدیث میں آتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں کسی شخص کو دیتا ہوں، جب کے دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتاہے"۔ ایسا میں اس اندیشے کی وجہ سے کرتاہوں کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جائے۔ (صحیح مسلم) عمرو رضی اللہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تعریف کرتے ہوئے سنا تو کہا: اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کی بجائے مجھے سرخ اونٹ مل جائیں ۔ یعنی اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس ثنا کی بدولت میری جو تکریم کی، اس کا کوئی بدیل مجھے پسند نہیں ہے، چاہے مجھے عرب کا سب سے نفیس مال، سرخ اونٹ ہی کیوں نہ دیے جائیں۔