المؤخر
كلمة (المؤخِّر) في اللغة اسم فاعل من التأخير، وهو نقيض التقديم،...
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب حنین کا معرکہ پیش آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم میں کچھ لوگوں کو ترجیح دی۔ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے اور عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ کو بھی اتنا ہی مال عطا فرمایا۔ آپ نے عرب کے معزز لوگوں کو مال عطا فرمایا اور انھیں اس دن تقسیم میں ترجیح دی، تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایسی تقسیم ہے، جس میں عدل نہیں کیا گیا اور اس تقسیم سے اللہ کی رضا کا قصد نہیں کیا گیا۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں یہ بات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو وہ بات بتائی، جو اس آدمی نے کہی تھی۔ اس پر آپ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوکر سرخ ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے، تو پھر کون عدل کرے گا؟ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے۔ ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی اور انھوں نے صبر کیا! میں نے (اپنے جی میں) کہا: آئندہ میں ایسی بات آپ ﷺ کو نہیں بتایا کروں گا‘‘۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ بتا رہے ہیں کہ وہ غزوۂ حنین میں تھے۔ یہ غزوۂ طائف ہے، جو فتح مکہ کے بعد پیش آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل طائف کے ساتھ جنگ کی اور ان سے آپ ﷺ کو اونٹوں، بھیڑ بکریوں اور درہم و دینار کی شکل میں بہت زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔ پھر آپ ﷺ نے مقام جعرانہ پر پڑاؤ کیا۔ یہ طائف کی سمت میں حرم کی حدود کے اختتام پر واقع ایک جگہ ہے۔ آپ ﷺ نے اس جگہ پڑاؤ کیا اور مال غنیمت کو اس غزوے کے شرکا کے مابین تقسییم کیا۔ آپ ﷺ نے اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے اور عیینہ بن حصن کو بھی سو اونٹ دیے اور عرب کے معزز لوگوں کو بھی مال سے نوازا۔ اس سے آپ ﷺ کی غرض انھیں اسلام کے ساتھ مانوس کرنا تھا؛ کیوں کہ اگر تحفے تحائف اور مال دینے سے ان لوگوں کا اسلام ٹھیک ہوجاتا، تو ان کے پیروکاروں خود بخود اسلام قبول کر لیتے اور اس سے اسلام کو قوت اور شان و شوکت حاصل ہوتی۔ جن کا ایمان مضبوط تھا انھیں آپ ﷺ نے مال نہ دیا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو ان کے ایمان پر اعتماد تھا۔ ایک آدمی نے جب دیکھاکہ نبی ﷺقبائل کے سرداروں اور معززین قوم میں مال تقسیم کرتے جارہے ہیں اور کچھ لوگوں کو مال نہیں دے رہے، تو وہ کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! اس تقسیم میں عدل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس سے مقصود اللہ کی رضا جوئی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا، تو وہ جلدی سے نبی ﷺ کے پاس آئے اور آنے سے پہلے قسم کھائی کہ وہ ضرور آپ ﷺ کو اس کے بارے بتائیں گے۔ جب انھوں نے نبی ﷺ کو اس کی خبر دی، تو آپ ﷺ سخت غصے میں آگئے اور آپ ﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ تبدیل ہو کر خالص سرخ ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے، تو پھر عدل کون کرے گا؟ یعنی آپ ﷺ نے اس کی اس بات پر ناگواری کا اظہار فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم کرے، انھیں اس سے زیادہ تکلیف پہنچائی گئی، لیکن انھوں نے صبر کیا۔ ابن مسعود رضی اللہ نے جب رسول اللہ ﷺ کی یہ حالت دیکھی، تو دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ اگر میں ان لوگوں سے کوئی ایسی ناگوار بات سنوں گا، تو نبی ﷺ کو ہر گز نہ بتاؤں گا؛ کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ آپ ﷺ کو اس پر بہت غصہ آیا ہے۔ بشرطے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو، جس کی وجہ سے نبی ﷺ یا اسلام کو کوئی نقصان پہنچتا ہو۔