المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا، جس نے ننانوے قتل کیے تھے۔ اس نے پوچھا کہ روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟ چنانچہ اسے ایک راہب کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس گیا اور کہا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ راہب نے کہا کہ نہیں! (اس کی توبہ قبول نہ ہو گی) تو اس نے اس راہب کو بھی مار ڈالا اور یوں سو (100) قتل پورے کر دیے۔ پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ زمین میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ لوگوں نے ایک عالم کے بارے میں بتایا (تو وہ اس کے پاس گیا) اور پوچھا کہ اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ وہ بولا کہ ہاں ہے اور آخر توبہ کرنے میں کون سی شے حائل ہو سکتی ہے؟ تو فلاں علاقے میں جا، وہاں کچھ لوگ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ تو بھی جا کر ان کے ساتھ عبادت کر اور اپنے علاقے میں واپس نہ جانا؛ کیوں کہ وہ بری جگہ ہے۔ چنانچہ وہ اس علاقے کی طرف چل پڑا، جب آدھا سفر طے کر لیا، تو اس کو موت آ گئی۔ اب عذاب کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوگیا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے صدق دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آ رہا تھا۔ جب کہ عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی! آخر ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں آیا اور دونوں فرشتوں نے اسے حکم مان لیا۔ اس نے کہا کہ دونوں طرف کی زمین ناپو، یہ جدھر سے قریب ہوگا، اسے ادھر ہی کا مان لیا جائے گا۔ سو انھوں نے زمین کو ناپا تو اسے اس زمین سے زیادہ قریب پایا، جس کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتے اس کو لے گئے"۔ ایک اور روایت میں ہے: "وہ اس صالح بستی سے ایک بالشت کی مقدار زیادہ قریب تھا۔ چنانچہ اسے انہی لوگوں میں شامل کر دیا گیا"۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نے اس زمین کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ تو دور ہو جا اور اس زمین کو حکم دیا کہ تو قریب ہو جا۔ اور کہاکہ ان دونوں کے مایبن کی مسافت کو ناپو۔ جب انھوں نے ناپا تو معلوم ہوا کہ وہ اس زمین سے ایک بالشت کی مقدار زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ اس کی مغفرت کر دی گئی"۔ ايک روایت میں ہے: "اس نے اپنے سینے کو کھینچ کر اس زمین کی طرف کر دیا"۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہم سے پہلی امتوں میں سے کسی امت میں ایک آدمی تھا، جس نے ننانوے لوگوں کو قتل کر رکھا تھا۔ احساس ندامت سے مغلوب ہو کر اس نے لوگوں سے علاقے کے سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا، تاکہ اس سے اپنے بارے میں دریافت کر سکے کہ کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس کی رہ نمائی ایک شخص کی طرف کی گئی، جو تھا تو عابد، لیکن اس کے پاس علم نہیں تھا۔ جب اس نے اس سے پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، تو کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ راہب کو یہ گناہ بہت بڑا لگا اور وہ کہنے لگا کہ تیرے لیے کوئی توبہ نہیں ہے۔ اس پر وہ شخص غصہ میں آ گیا اور بے کلی میں اس نے راہب کو بھی قتل کر دیا اور اس طرح سو قتل پورے کر دیے۔ پھر دوبارہ اس نے علاقے کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا۔ اسے ایک عالم شخص کا پتہ بتایا گیا۔ اس نے اس سے پوچھا کہ اس نے سو افراد کو قتل کیا ہے، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اکیوں نہیں! اس کے اور توبہ کے مابین کون سی شے حائل ہو سکتی ہے؟ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن فلاں بستی میں جاؤ۔ اس میں کچھ لوگ ہیں، جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ جس علاقے میں تھا، شاید وہ دار الکفر تھا۔ واللہ اعلم۔ اس لیے اس نے اس سے کہا کہ اپنے دین کی خاطر وہ اس بستی کی طرف ہجرت کر جائے، جس میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے۔ وہ شخص پشیمان و تائب ہو کر اپنے دین کی خاطر اس علاقے کی طرف ہجرت کر گیا، جس میں اللہ کی عبادت کرنے والے لوگ تھے۔ آدھا راستہ طے کیا تھا کہ اس کی موت آ گئی۔ اب اس کے بارے میں عذاب اور رحمت کے فرشتوں کے مابین اختلاف ہو گیا؛ رحمت کے فرشتے کہنے لگے کہ اس نے توبہ کر لی تھی اور وہ نادم و تائب ہو کر آ رہا تھا (لیکن عذاب کے فرشتے اسے اپنے ساتھ کے جانے پر مصر تھے)۔ اس طرح ان کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ایک فرشتہ بھیجا؛ تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے۔ اس نے کہا: دونوں جانب کی مسافت کی پیمائش کرو۔ جس علاقے سے وہ زیادہ قریب ہو، اسے اس کے باشندوں میں سے گردانا جائے گا۔ یعنی اگر وہ دار الکفر کے زیادہ قریب ہو، تو عذاب کے فرشتے اس کی روح قبض کریں گے اور اگر دار الایمان کے زیادہ قریب ہو، تو رحمت کے فرشتے اس کی روح قبض کریں گے۔ چنانچہ انھوں نے ان دونوں کی مسافت کو ناپا، تو جس علاقے کی طرف وہ جا رہا تھا، یعنی دارالایمان کی جانب، وہ اس علاقے کی بہ نسبت ایک بالشت قریب نکلا، جہاں سے وہ ہجرت کر کے آ رہا تھا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح قبض کی۔