الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ اعتکاف میں تھے، تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے (مسجد میں) آئی۔ میں آپ ﷺ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی، تو آپ ﷺ بھی مجھے چھوڑ کر آنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ صفیہ رضی اللہ عنہا کی رہائش اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے مکان ہی میں تھی۔ اسی وقت دو انصاری صحابہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، تو تیز چلنے لگے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ذرا ٹھہرو۔ یہ صفیہ بنت حیی ہیں! ان دونوں صحابہ نے عرض کیا: سبحان اللہ، یا رسول اللہ! (کیا ہم آپ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمھارے دلوں میں بھی کوئی بری بات نہ ڈال دے۔ یا آپ ﷺ نے اس کی بجائے فرمایا کہ کوئی بات نہ ڈال دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں آپ ﷺ سے ملنے کے لیے آئیں۔ کچھ دیر آپ ﷺ کے پاس بیٹھی گفتگو کرتی رہیں اور پھر واپس جانے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔ آپ ﷺ انھیں رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہو لیے۔ یہاں تک کہ جب وہ مسجد کے دروازے پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھرکے دروازے کے پاس پہنچ گئیں، تو... (اس کے بعد مذکورہ حدیث کا ہی مضمون ہے)
نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ کی زوجہ صفیہ رضی اللہ عنہ ایک رات آپ ﷺ سے ملاقات کے لیے آئیں۔ وہ کچھ دیر آپ ﷺ سے باتیں کرتی رہیں۔ پھر اپنے گھر واپس جانے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔ آپ ﷺ انھیں رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہو لیے۔ اتنے میں دو انصاری آدمیوں کا وہاں سے گزر ہوا۔ جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کی بیوی کو دیکھا، تو آپ ﷺ سے شرم محسوس کرتے ہوئے جلدی جلدی چلنے لگے۔ آپ ﷺ نے ان سے کہا: "على رِسْلِكُمَا" یعنی کچھ آہستہ چلو۔ یہ میری بیوی صفیہ ہے۔ ان دونوں نے جواب دیا کہ سبحان اللہ! کیا ذہن میں آپ کے خلاف کوئی بد گمانی آ سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ شیطان تو بنی آدم کو گمراہ کرنے کے درپے رہتا ہے اور ان پر اسے بہت زیادہ قدرت حاصل ہے۔ وہ انسان کے خون کے ساتھ دوڑتا ہے؛ کیوں کہ وہ بہت غیر محسوس انداز میں داخل ہوتا ہے اوراس کے راستے بہت مخفی ہیں۔ نبی ﷺ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں شیطان ان کے دل میں کوئی بات نہ ڈال دے۔