الحكيم
اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...
زر بن حبیش کہتے ہیں: میں صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کے پاس موزوں پر مسح کرنے کا مسئلہ پوچھنے کے لیےآیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا: اے زر! کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے؟ میں نے کہا: علم کی تلاش و جستجو میں آیا ہوں، انہوں نے کہا: فرشتے طالبِ علم کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اس علم (دین) سے خوش ہوکر جو وہ حاصل کرتا ہے، میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کرنے کی بابت میرے دل میں اشتباہ پیدا ہو گیا ہے، آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے ہیں لہذا میں آپ سے یہ پوچھنےکے لیے آیا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں جب ہم سفر پر ہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ’’ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہوجائے، تاہم پاخانہ پیشاب کر کے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں (پہنے رہیں)، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کے متعلق بھی کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اس دوران کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو اے محمد!کہہ کر بآواز بلند پکارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا کہ ’’میں یہاں ہوں۔‘‘ میں نے اس سے کہا: افسوس ہے تجھ پر، اپنی آواز پست کر، کیوں کہ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہے، اور اس طرح اونچی آواز سے بولنا تیرے لیے ممنوع ہے۔ اعرابی نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا۔ اس نے کہا: ''الْمَرْءُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ'' ’’آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے حالانکہ وہ ان سے نہیں ملا؟‘‘ (گویا یہ اس کا سوال تھا جو اس نے کیا)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ'' آدمی قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی۔ پھر وہ ہم سے گفتگو فرماتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مغرب کی جانب ایک دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی چالیس یا ستر سال کی مسافت کے برابر ہے، یا یوں فرمایا کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہوگی کہ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا۔ سفیان (حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، اللہ تعالیٰ نے اس دروازہ کو اس وقت بنایا جب اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور اسی وقت سے یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے، یہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک کہ سورج اس (مغرب) کی طرف سے طلوع نہیں ہوگا۔
زر بن حبیش، صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کے پاس موزوں پر مسح کرنے کا مسئلہ پوچھنے آئے، انہوں نے ان سے آنے کی وجہ پوچھی تو زر نے جواب دیا کہ وہ یہاں علم کی تلاش میں آئے ہیں، صفوان نے زر کو بتایا کہ فرشتے طالبِ علم کی عزت وتوقیر میں اور جس چیز کو حاصل کرنے کے لئے وہ نکلا ہے اس سے خوش ہو کر پرواز کو ترک کرکے اپنے پروں کو سمیٹ لیتے ہیں اور سکینت اختیار کرتے ہیں۔ زر نے کہا کہ پیشاب یا پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بابت میرے دل میں کھٹک سی ہے کہ اس پر مسح جائز ہے یا ناجائز؟ صفوان بن عسال رضي الله عنہ نے بتایا کہ یہ جائز ہے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں حکم دیا تھا کہ جب وہ سفر پر ہوں تو اپنے موزے نہ نکالیں مگر جب جنابت کے لیے غسل کرنا ہو تو موزے نکالنا ضروری ہے۔ البتہ پیشاب پاخانہ اور نیند سے بیدار ہو کر وضو کرنا ہو تو موزوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ پھر زر بن حبيش نے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کے متعلق بھی کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور اس دیہاتی کا قصہ بیان کیا جس کی آواز بلند تھی اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آکر بآواز بلند یا محمد!کہہ کر پکارا۔ اس سے کہا گیا تمہارا ناس ہو تم بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو آواز دیتے ہو، جبکہ اللہ کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو!نبی کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو، اور ان کے سامنے بلند آواز سے اس طرح بات نہ کرو جس طرح تم میں سے بعض، بعض کے سامنے اپنی آواز بلند کرتا ہے کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اورتمہیں خبر بھی نہ ہو’’ (الحجرات: ۲) دیہاتی لوگ چونکہ تعلیم اور تہذیب وتمدن سے دور ہونے کی وجہ سےادب و تہذیب سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ اسی ناطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلند آواز میں اسی کے انداز میں جواب دیا ، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت رہنما کامل ترین انسان تھے، اس لئے ہر انسان کو اس کی سمجھ کے مطابق مخاطب کرتے، اس ناطے دیہاتی کو اسی کے انداز میں بلند آواز میں جواب دیا۔ دیہاتی نے کہا: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتاہے حالاں کہ وہ اس سے نہیں ملا، یعنی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن اس کاعمل ان کے علم سے کمتر ہوتا ہے ، عمل میں وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا، تو وہ کس کے ساتھ ہوگا؟ کیا وہ ان کے ساتھ ہوگا یا نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ‘‘آدمی قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی۔’’ پھر زر کہتے ہیں: ہم سے صفوان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مغربی سمت میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی یا یہ کہا کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی دوری اتنی ہوگی کہ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال تک میں پہنچے گا، کہا گیا ہے کہ یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا ، جب اللہ نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا، اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔