المحسن
كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...
معن بن یزید بن اخنس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میرے والد یزید نے چند دینار صدقہ کے لیے نکالے اور انہیں مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا۔ میں آیا تو میں نے ان کو لے لیا اور انہیں لے کر اپنے والد کے پاس آیا۔ میرے والد نے کہا کہ اللہ کی قسم! میرا تجھ کو دینے کا ارادہ نہ تھا۔ چنانچہ میں یہ مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اے یزید! تجھے وہ (اجر و ثواب) ملے گا جس کی تو نے نیت کی اور اے معن! وہ تیرا ہے جو تو نے لے لیا ‘‘۔
یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے کچھ درہم نکال کر مسجد میں موجود ایک شخص کے پاس رکھ دیے تاکہ وہ اسے فقرا کو بطور صدقہ دے دے۔ اتنے میں ان کا بیٹا آیا اور اس نے وہ درہم لے لیے۔انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میرا ارادہ یہ نہیں تھا کہ یہ درہم بطور صدقہ تجھے دوں۔ اس پر وہ دونوں اپنا مقدمہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اے یزید! تجھے وہ مل جائے گا جس کی تو نے نیت کی کیونکہ تو نے صدقہ مسلمانوں کے فقرا میں سے ایک فقیر شخص تک پہنچا دیا ہے چنانچہ تمہاری نیت کے مطابق تمہارے لیے اجر واجب ہو چکا ہے اور اے معن! تو نے جو کچھ لیا ہے وہ تیرا ہے۔ کیونکہ تو نے صحیح طریقے سے اسے حاصل کیا ہے۔ یزید بن اخنس کے بیٹے اس صدقے کے مستحقین میں سے تھے۔