المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو ایک تہائی حصہ (پیٹ) کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے مختص کر دے‘‘۔
نبی کریم ﷺ ہمیں طبی اصول میں سے ایک اصول کی طرف رہنمائی فرما رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا پرہیز ہے جس سے انسان اپنی صحت کی حفاظت کر سکتا ہے اور وہ ہے کھانے میں کمی کرنا۔ بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ اتنا کھائے جس سے اس کی سانس باقی رہ سکے اور جو اسے ضروری کام نمٹانے کی قوت فراہم کرے۔ سب سے گندہ برتن جسے بھرا گیا ہو وہ پیٹ ہے کیونکہ خوب سیر ہو کر کھانے سے مہلک قسم کے امراض جنم لیتے ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے کچھ تو فوری پیدا ہوتے ہیں اورکچھ تاخیر سے اور کچھ باطنی ہوتے ہیں اور کچھ ظاہری۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر انسان کو سیر ہو کر کھانا ہی ہو تو پھر ایک پیٹ کے ایک تہائی حصے کو کھانے کے لیے اور ایک تہائی کو پینے کے لیے مخصوص کر دے اور ایک تہائی کو سانس لینے کے لیے چھوڑ دے تا کہ کوئی تنگی اور نقصان نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس پر جو دینی اور دنیاوی امور فرض کیے ہیں ان کی ادائیگی میں اُسے کوئی سستی لاحق نہ ہو۔