القوي
كلمة (قوي) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من القرب، وهو خلاف...
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے سوار تھا کہ اسی درمیان آپ نے فرمایا: "اے لڑکے! میں تمھیں کچھ باتیں سکھانا چاہتا ہوں۔ اللہ (کے حقوق) کی حفاظت کرو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ (کے حقوق) کا خیال رکھو ، اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے اور جب مانگو، تواللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو، تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو، اور اس بات کو جان لوکہ اگر تمام مخلوق بھی تمھیں فائدہ پہنچانا چاہے، تو تمھیں اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے، جتنا اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سب مل کر بھی تمھیں نقصان پہنچانا چاہیں، تو تمھیں اتنا ہی نقصان پہنچاسکتے ہیں، جتنا اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیاہے۔ قلم اٹھالیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔ ایک اور روایت میں ہے: "اللہ (کے حقوق) کا خیال رکھو، تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے۔ تم خوش حالی میں اللہ کو یاد رکھو، وہ سختی کے وقت تمھیں یاد رکھے گا۔ جان لو کہ جو چیز تمھیں نہیں ملی، وہ تمھیں ملنے والی نہیں تھی، اور جو تمھیں مل گئی، وہ تمھیں ملے بغیر رہنے والی نہیں تھی۔ جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ ہی آتی ہے اور کشادگی تنگی پر ہی آتی ہے اور یہ کہ مشکل کے ساتھ ہی آسانی ہے۔
اس عظیم حدیث میں نبی ﷺ اس لڑکے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کچھ بہت ہی اہم نصیحتیں فرما رہے ہیں, جن میں یہ تلقین ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر گھڑی اللہ کے احکامات و نواہی کی پاس داری کریں۔ نبیﷺ بچپن میں ہی ان کا عقیدہ درست فرما رہے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں، اللہ کے سوا کوئی قدرت والا نہیں۔ اللہ کے ساتھ کوئی اور نہیں، جو امور کی تدبیر کرتا ہو۔ بندے اور اس کے رب اور مولا کے مابین کوئی بھی واسطہ نہیں۔ مصیبت آنے پر اللہ ہی سے امیدیں باندھنی چاہییں۔ جب کسی تکلیف کا سامنا ہو، تو اس میں اللہ ہی سے آس لگانی چاہیے۔ نبی ﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ذہن میں اللہ کی قضا و قدر پر ایمان لانےکو راسخ فرمایا؛ کیو ںکہ ہر چیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قضا و قدر ہی سے ہوتی ہے۔