الباسط
كلمة (الباسط) في اللغة اسم فاعل من البسط، وهو النشر والمدّ، وهو...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس جاسوسوں کی ایک جماعت بھیجی اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان واقع مقام 'ھدأہ' پر پہنچے، تو قبیلۂ ہذیل کی ایک شاخ، جسے بنی لحیان کہا جاتا تھا، اسے کسی نے ان کے آنے کی خبر کردی ۔ چنانچہ انھوں نے سو تیر اندازوں کو ان کے تعاقب میں روانہ کر دیا۔ وہ ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوۓ چل پڑے۔ جب عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی آمدکا پتہ چلا، تو انھوں نے ایک (محفوظ)جگہ پناہ لے لی۔ قبیلے والوں نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ۔ ہماری پناہ قبول کر لو۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمھارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: مسلمانو! میں کسی کافر کے امان میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انھوں نے دعا کی، اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے ۔آخر قبیلے والوں نے مسلمانوں پر تیر برساۓ اور عاصم رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں، ان کے وعدے پر تین صحابہ اتر آئے۔ جن میں خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلے والوں نے جب ان تینوں صحابہ پر قابو پا لیا تو اپنے تیر کی کمان سے تانت نکال کر انھیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا: یہ تمھاری پہلی عہد شکنی ہے۔ میں تمھارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے تو وہی نمونہ ہیں۔ ان کا اشارہ مقتول صحابہ کی طرف تھا۔ کفار نے انھیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی، لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ انھوں نے ان کو بھی شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے گئے اور مکہ میں لے جا کرانھیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے۔ بالآخر انھوں نے ان کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔ (انھیں دنوں) حارث کی کسی لڑکی سے انھوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس اس عورت کی بےخبری میں چلا گیا۔ وہ دیکھتی کیا ہے کہ اس کا بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دیکھتے ہی وہ حد درجہ گھبرا گئی۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے اس کی گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور بولے: کیا تمھیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو کہ میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ اس خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن ان کے ہاتھ میں موجود انگور کے ایک خوشہ سے انھیں کھاتے دیکھا، حالاں کہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکے میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ در اصل خبیب رضی اللہ عنہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجی ہوئی روزی تھی ۔ پھر بنو حارثہ انھیں قتل کرنے کے لیے حدودِ حرم سے باہر”حل“لے جانے لگے۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ انھوں نے اس کی اجازت دی، تو انھوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل) سے گھبرا رہا ہوں تو میں مزید پڑھتا۔ پھر انھوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو گن لے، ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔ اور یہ اشعار پڑھے: "جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا۔ اور یہ سب تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے، تو میرےپھٹے ہوۓ جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے"۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے ہر اس مسلمان کےلیے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز پڑھنے کی سنت قائم کردی، جسے قید کر کے قتل کیاجائے ۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے اسی دن اپنے صحابہ کو ان دس صحابہ کی خبر دے دی، جس دن ان پر یہ مصیبت آن پڑی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے ہیں، تو ان (کی نعش) کے پاس اپنے آدمی بھیجے؛ تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں، جس سے ان کی شناخت ہوجائے؛ کیوں کہ انھوں نے بھی (بدر میں)ان کے ایک سردارکو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عاصم رضی اللہ عنہ کی نعش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور ان بھڑوں نے آپ کی نعش کو کفار قریش کے ان قاصدین سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے۔
عاصم بن ثابت انصاری اور ان کے ساتھی صحابہ رضی اللہ عنھم کے اس قصے میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی ایک واضح کرامت کا ثبوت ہے۔ نبی ﷺ نے ان دس صحابہ رضی اللہ عنھم کو دشمنان اسلام کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمایا تھا؛ تاکہ ان کی خبریں اور خفیہ اطلاعات بہم پہنچائیں۔ جب صحابہ کی یہ جماعت، مکہ مکرمہ کے قریب پہنچی، تو قبیلۂ ہذیل کی ایک جماعت کو ان کی آمد کا پتہ چل گیا اور ماہر تیر اندازوں پر مشتمل لگ بھگ سو افراد کی جمعیت ان کی جانب نکل پڑی۔ انھوں نے نقش قدم کا تعاقب کرتے ہوئے ان کا گھیراؤ کرلیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ ان کے امان میں نیچے اتر جائیں۔ انھوں نے یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ انھیں قتل نہیں کریں گے۔ لیکن عاصم رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ میں کسی کافر کے عہد وپیمان پر نہیں اتروں گا؛ کیوں کہ کافر نے اللہ سے خیانت کی ہے اور جو اللہ سے خیانت کر سکتا ہے، وہ اس کے بندوں سے بھی کر سکتا ہے۔ انھوں نے صحابہ پر تیر برسانی شروع کردی اور عاصم اور دیگر چھے صحابۂ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو شہید کردیا۔ دس میں سے تین باقی رہ گئے، جو نیچے اترنے پر راضی ہوگئے۔ ہذیلیوں نے انھیں پکڑلیا اور ان کے ہاتھ باندھ دیئے۔ اس پر تیسرے صحابی نے کہا کہ یہ سب سے پہلی عہد شکنی ہے۔ میں تمھارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے انھیں بھی شہید کردیا۔ پھر انھوں نے خبیب اور ان کے ساتھی کو مکہ لے جاکر فروخت کردیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ میں سے ان لوگوں نے خریدلیا، جن کے ایک سردار کو خبیب رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر میں قتل کیا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ ان سے بدلہ لینے کا یہی موقع ہے۔ انھوں نے خبیب کو اپنے ہاں قید رکھا۔ انھیں دنوں بنو حارثہ کے گھر کا ایک چھوٹا سا بچہ خبیب رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچ گیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ کے دل میں اس بچے کے لیے شفقت و رحمت کے جذبات امنڈ پڑے۔ انھوں نے اسے اپنی ران پر بٹھالیا۔ قبل ازیں انھوں نےاپنے زیرناف بال کاٹنے کے لیے گھر والوں سے استرہ مانگ کر لیا تھا اور بچے کی ماں اس سے بالکل ان جان تھی۔ جب اس کو اس امر کا پتہ چلا تو خو ف زدہ ہوگئی کہ کہیں خبیب بچے کو قتل نہ کردیں؛ صحابی رضی اللہ عنہ نے جب محسوس کیا کہ بچے کی ماں خوف زدہ ہوگئی ہے، تو اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ اللہ کی قسم! میرا اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ خاتون کہا کرتی تھیں: اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں انگور کا ایک گچھا ہے، جس میں سے وہ کھا رہے ہیں، جب کہ مکہ مکرمہ میں کوئی پھل نہیں تھا۔ میں جان گئی کہ یہ اللہ عز وجل کی جانب سے خبیب رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی کا ایک مظہر ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مکے میں اسیری کی حالت میں ان کے کھانے کا انتظام کرتے ہوئے (آسمان سے) انگور کے گچھے نازل فرمادیے۔ پھر ان لوگوں نے خبیب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا، جن کے والد کو انھوں نے(غزوۂ بدرمیں)قتل کیا تھا، لیکن حرم مکہ کے احترام میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں حدود حرم کے باہر لے جاکر قتل کریں گے۔ چنانچہ جب وہ خبیب کو قتل کرنے کے لیے حدود حرم کے باہر "حل" کی جانب نکلے، تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے دو رکعت نماز ادا کرنے کی درخواست کی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ تم یہ کہنے لگو کہ یہ قتل ہونے سے ڈر گیا ہے-یا اس جیسی کوئی اور بات کہی-، تو اور نمازیں پڑھتا۔ انھوں نے دو رکعت ہی پڑھی اور پھر ان کے حق میں تین بد دعائیں کیں: اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو گن لے، ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ رہنے دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی۔ ان میں سے کوئی بھی اس سال زندہ نہ رہا، بلکہ ان سب کو قتل کردیا گیا۔ یہ بھی اس صحابی جلیل کے شرف و کرامات میں سے ہے۔ پھر انھوں نے یہ اشعار پڑھائے: جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں، تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ سب تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے، تو میرےپھٹے ہوۓ جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے۔ دوسری جانب، شہید ہونے والے صحابی عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی خبر جب قریش کے بعض لوگوں تک پہنچی، جن کے ایک سردار کو عاصم نے قتل کیا تھا، تو انھوں نے کچھ لوگوں کو ان کی شناخت کے لیے ان کے کسی عضو کو کاٹ کر لانے کی خاطر روانہ کیا؛ تاکہ انھیں اطمینان ہوجائے کہ واقعی انھیں کو قتل کیا گیا ہے۔ جب یہ لوگ ان کا کوئی عضو حاصل کرنے کے لیے پہنچے، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بادل کی طرح شہد کی مکھیوں کا جھنڈ بھیجا، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے ان کی حفاظت فرمائی۔ دشمن ان کے پاس پہنچنے سےعاجز رہ گئے اور ناکام و نامراد لوٹ گئے۔ یہ بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عاصم رضی اللہ عنہ کےلیے شرف و کرامت کا اظہار تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے جسم کو دشمنوں سے محفوظ رکھا، جو ان کے جسم کا مثلہ کرنے کے خواہش مند تھے۔