البحث

عبارات مقترحة:

المؤخر

كلمة (المؤخِّر) في اللغة اسم فاعل من التأخير، وهو نقيض التقديم،...

الحي

كلمة (الحَيِّ) في اللغة صفةٌ مشبَّهة للموصوف بالحياة، وهي ضد...

الباسط

كلمة (الباسط) في اللغة اسم فاعل من البسط، وهو النشر والمدّ، وهو...

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، پھر رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے، پھر دیر تک کھڑے رہے، البتہ آپ کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا، تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے، البتہ پہلے سے کم، پھر سجدے میں گئے اور دیر تک سجدے میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے ویسا ہی کیا، جیسا پہلی رکعت میں کیا تھا۔ جب فارغ ہوئے، تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعدآپ نے خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو، تو اللہ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: اے امت محمد()! دیکھو، اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے۔ اے امت محمد()! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر تمھیں بھی معلوم ہوجائے، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے چار رکوع اور چار سجدے کیے۔

شرح الحديث :

رسول اللہ کے دور میں (ایک بار) سورج گرہن لگا۔ چوں کہ سورج گرہن خلاف معمول واقعہ تھا، اس لیے آپ نے اپنے صحابہ کو ایسی نماز پڑھائی جو اپنی ہیئت اور مقدار کے اعتبار سے عام نمازوں سے جدا تھی۔ آپ نے نماز میں لمبا قیام کیا، پھررکوع کیا، تو رکوع میں بہت دیر تک رہے، پھر رکوع سے اٹھے اور لمبی قراءت کی، لیکن پہلی قراءت سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے، لیکن پہلے رکوع سے كم، پھر سجدے میں گئے اور دیر تک سجدے کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے پہلی رکعت کی طرح سب کچھ کیا، البتہ یہ اس سے کچھ ہلکی تھی۔ چنانچہ ہر رکن، ماقبل رکن سے ہلکا تھا۔ دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعد آپ نے حسب معمول خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد انھیں وعظ و نصیحت فرمائی۔ اتفاقا سورج گرہن کے دن ہی آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ چنانچہ زمانۂ جاہلیت کے اس عقیدے کی بنیاد پر کہ سورج کو گرہن کسی عظیم شخصیت کی موت یا پیدائش کی بنا پر ہی لگتا ہے، کسی نے یہ کہہ دیا کہ آج سورج کو گرہن آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ک وجہ سے لگا ہے، تو رسول اللہ نے حق رسالت کی ادائیگی اور لوگوں کو نفع یاب کرنے کے تئیں اپنے سچے اخلاص کی بنیاد پر یہ مناسب سمجھا کہ ان کے ذہنوں سے ان خرافات کو زائل فرما دیں، جو نہ قرآن و سنت سے ثابت ہیں، نہ عقل سلیم کے معیار پر اترتے ہیں۔ نیز سورج اور چاند گرہن کی حکمت بھی بیان کر دیں۔ چنانچہ خطبے کے دوران آپ نے فرمایا: سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان کوگرہن نہیں لگتا۔ انھیں اس کیفیت سے دوچار اللہ تعالی کرتا ہے؛ تاکہ اپنے بندوں کو تنبیہ کرے اور اپنی نعمت کی یاد دہانی کرائے۔ اس لیے جب تم گرہن لگتے ہوئے دیکھو تو اللہ کے سامنے گڑگڑاؤ، توبہ اور رجوع کرو، اس سے دعا مانگو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو؛ کیوں کہ اس سے آنے والی آزمائشیں ٹل جاتی ہیں اور نازل ہونے والے عذاب تھم جاتے ہیں۔ پھر آپ ان کے سامنے اللہ کی کچھ بڑی پھر آپ ان کے سامنے اللہ کی کچھ بڑی نافرمانیوں کا ذکر کرنے لگے۔ جیسے زنا، جو معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ کا سبب اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کا باعث ہے۔ پھر صادق مصدوق نے اس وعظ میں قسم کھاکر فرمایا: اے امت محمد! دیکھو اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے۔ پھر بتایا کہ ان کے پاس اللہ کے عذاب کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ اگر انھیں وہ سب کچھ معلوم ہو جائے جو آپ کو معلوم ہے، تو ان پر خوف طاری ہو جائے۔ وہ ہنسنا کم کر دیں اور زیادہ سے زیادہ رو‎‎ئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے پیش نظر اسے لوگوں سے چھپارکھا ہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية