البحث

عبارات مقترحة:

القيوم

كلمةُ (القَيُّوم) في اللغة صيغةُ مبالغة من القِيام، على وزنِ...

المولى

كلمة (المولى) في اللغة اسم مكان على وزن (مَفْعَل) أي محل الولاية...

المؤمن

كلمة (المؤمن) في اللغة اسم فاعل من الفعل (آمَنَ) الذي بمعنى...

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ’’اے ابن آدم! بے شک تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا تب تک تجھ سے جو بھی گناہ سرزد ہوں گے میں ان پر تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کچھ بھی پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں اور پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر گناہ کر کے مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں اس کے برابر مغفرت عطا کروں گا‘‘۔

شرح الحديث :

یہ حدیث اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور اس کے جود و کرم کی دلیل ہے۔ اس میں ان اسباب کا بیان ہے جن سے آدمی کو مغفرت حاصل ہوتی ہے یعنی دعا اور استغفار کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں اسباب کو توحید کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ چنانچہ جو شخص اللہ عز و جل سے اس حال میں ملتا ہے کہ وہ توحید کا اقرار کرنے والا ہوتا ہے، اسے دعا اور استغفار فائدہ دیتے ہیں۔ اورشرک کے ہوتے ہوئے نہ تو دعا نفع بخش ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسری چیز۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية