الحليم
كلمةُ (الحليم) في اللغة صفةٌ مشبَّهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل)؛...
انس - رضی اللہ عنہ - سے مروی ہے کہ انھوں نے ثابت رحمہ اللہ کو کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا دم نہ سکھا دوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں۔ انس - رضی اللہ عنہ - نے فرمایا کہ (وہ یہ ہے): «اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ البَأسِ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي، لاَ شَافِيَ إِلاَّ أنْتَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً». ترجمہ: اے اللہ، اے لوگوں کے پروردگار، اے پریشانی کو دورکرنے والے! تو شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے۔
انس بن مالک - رضی اللہ عنہ - نے ثابت البنانی رحمہ اللہ کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا میں تمہیں وہ دم نہ سکھا دوں جو نبی ﷺ کیا کرتے تھے؟۔ آپ ﷺاپنے رب سے مریض کے لیے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ وہ اس سے مرض کی شدت، اس کی سختی اور تکلیف کو دور کردے اور ایسی شفا دے دے جس کے بعد پھر سے مرض لوٹ کر نہ آئے۔ علماء کا دَمْ کے جائز ہونے پر اتفاق ہے بشرطیکہ تین شرائط پائی جائیں: 1۔ یہ کلام اللہ یا اس کے اسماء و صفات کے ساتھ ہونا چاہئے۔ 2۔ یہ عربی زبان میں ہو اور اس کا معنی سمجھ میں آنے والا ہو۔مستحب یہ ہے کہ یہ ان الفاظ کے ساتھ ہو جو احادیث میں آئے ہیں۔ 3۔ اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ دَمْ میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں بلکہ اس میں تاثیر اللہ کی طرف سے آتی ہے۔