السميع
كلمة السميع في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل) أي:...
انس ابن مالک اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کھانا کھا لیتے تو آپ ﷺ (آخر میں) اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹ لیا کرتے تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس سے گندگی کو جھاڑ کر اسے کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ اور آپ ﷺ نے حکم دیا کہ (کھانے کے) برتن کو اچھی طرح صاف کر دیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ تمہارے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا شیطان تم میں سے ہر ایک کے ہر کام کے وقت موجود ہوتا ہے حتی کہ کھانے کے وقت بھی، لہذا اگر تم میں سے کسی سے اُس (کے کھانے) کا لقمہ گر جائے تو (وہ اُس لقمے کو اٹھا لے اور) اس لقمے پرجو گندگی لگ گئی ہو اُسے صاف کر لے اور پھر اُسے کھا لے اور اُس لقمے کو شیطان کےلیے نہ چھوڑے اور جب وہ کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے کھانے کے کس سے حصے میں برکت ہے۔
حدیث میں شیطان سے ڈرایا گیا ہے اور اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ انسان کے تمام افعال میں اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ چنانچہ مناسب یہ ہے کہ انسان (اس سے مقابلے کے لیے) تیار اور اس سے چوکنا رہے اور اس کی مزین کردہ باتوں سے دھوکا نہ کھائے۔ انسان کے سامنے جو کھانا آتا ہے اس میں برکت ہوتی ہے اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ برکت کھانے کے اس حصے میں ہے جسے اس نے کھا لیا ہے یا پھر اس حصے میں جو اس کی انگلیوں پر لگا ہے یا جو پلیٹ کے پیندی میں لگا رہ گیا ہے یا پھر اس لقمے میں جو نیچے گر گیا ہے۔چنانچہ انسان کو چاہیے کہ وہ ان سب کو ضائع ہونے سے بچائے تاکہ اسے برکت حاصل ہو سکے۔ برکت کا حقیقی معنی ہے بھلائی کا زیادہ ہونا، اس کا باقی رہنا اور اس سے نفع اٹھانا۔ یہاں مراد وہ کھانا ہے جس سے غذائیت حاصل ہو، جس میں کوئی گندگی نہ ہو اور جو اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کی قوت پیدا کرے۔ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ انگلیوں سے کھانا کھاتے ہوئے ایسی شے نکلتی ہے جو کھانے کو ہضم کرنے میں مدد کرتی ہے۔