الحسيب
(الحَسِيب) اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على أن اللهَ يكفي...
ابوموسی اشعری رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اس قرآن کی حفاظت (دیکھ بھال) کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ قرآن لوگوں کے سینوں سے نکل جانے میں اس اونٹ سے زیادہ تیز ہے جو رسی میں بندھا ہوا (اور اسے تڑاکے بھاگ نکلنے والا ہو)’’۔
“تعاھدوا القرآن” کا مطلب ہے قرآن کے پڑھنے کی پابندی کرو اور ہمیشہ اس کی تلاوت کرتے رہو، “فوالذي نفس محمد بيدہ لھو أشد تفلتا” میں تفلتا کا معنی ہے نکل جانا (جلدي بھول جانا) “من الإبل في عقلھا” عقل عقال کي جمع ہے اس رسی کو کہتے ہيں جس سے اونٹ کے اگلے پير کے درمیانی حصے کو باندھ ديا جاتا ہے (تاکہ وہ اٹھ نہ سکے)۔ سينے ميں محفوظ قرآن کی تشبيہ بھاگنے والے اس اونٹ سے دی گئی ہے جو مضبوطی کے ساتھ بندھا ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے انھیں اس عظیم نعمت سے نوازا ہے، لھٰذا انہيں چاہيے کہ اس کے حفظ کا خیال رکھيں اور اس کی پابندی کریں۔ چنانچہ اس کا ايک حصہ متعين کرکے روزانہ اس کی تلاوت کرتے رہيں تاکہ اسے بھوليں نہ، ليکن اگر کوئی طبعی طور پر بھول جائے تو کوئی مضايقہ نہيں، مگر جسے اللہ نے حفظ قرآن کی نعمت سے نوازا اور اس کے بعد اس نے سستی و کاہلی برتی اور قرآن کو بھلا ديا تو اس کے متعلق عقوبت کا خدشہ ہے۔ اس ليے ہميں چاہيے کہ ہم قرآن کی بلا ناغہ تلاوت کرتے رہيں تاکہ وہ ہمارے سينوں ميں باقی رہے، نيز اس کے احکامات پر عمل کرتے رہيں کیوں کہ کسی چيز پر عمل کرنا اس کے ياد رکھنے اور اس کے باقی رہنے کا باعث ہوتا ہے۔