الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث مرفوعاً مروی ہے کہ’’ اکیلا سوار ایک شیطان ہے ، دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار ہوں تب قافلہ بنتا ہے "۔
اس حدیث میں اکیلے ایک شخص کو اور دو اشخاص کو سفر پر جانے سے ڈرایا گیا ہے ۔ تاہم اس کا تعلق اس سفر سے ہے جہاں کسی کا گزر نہ ہو ۔ اس حدیث میں کسی کے ساتھ یا پھر گروہ کی شکل میں سفر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ انسان شیطان کی چالوں سے محفوظ رہے۔ جہاں تک تنہا سفر نہ کرنے کی بات ہے تو یہ جگ ظاہر ہے، بوقتِ ضرورت انسان کو دوسرے کی مدد در پیش ہوتی ہے، یا ہوسکتا ہے کہ راستے ہی میں اس کا انتقال ہوجائے (اور وہ بے یارومددگار ہوجائے) نیز تاکہ وہ شیطان کی چالبازی کا شکار نہ ہوجائے۔ جہاں تک صرف دو لوگوں کے سفر پر نکلنے کی ممانعت ہے تو اس میں علت یہ ہوسکتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اُن میں سے کوئی راستے میں کام آجائے (یا بیمار ہوجائے) تو دوسرا شخص تنہا ہوسکتا ہے۔ تاہم موجودہ دور میں کسی (شخص کا تنہا) موٹر کار میں سفر کرنا ایسے راستوں (روٹس) پر جو چالو ہو (بیابان نہ ہو) تو وہ تنہا سفر کرنے کی ممانعت میں شامل نہیں نہ ہی اُس اکیلے سوار مسافر کو شیطان کہا جائے گا، اس لیے کہ اپنی اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والے گویا قافلے کی شکل میں ہوتے ہیں، مثال کے طور پر جیسے مکہ اور ریاض یا مکہ اور جدہ کے مابین کے راستے ہیں، تاہم ایسے راستے جو غیر آباد (چالو نہ) ہوں، اُن پر گاڑی میں بھی سفر کرنا اکیلے سفر کرنے کی ممانعت کے ضمن میں آئے گا اور وہ سوار اِس حدیث کے حکم میں داخل ہوگا۔