المحيط
كلمة (المحيط) في اللغة اسم فاعل من الفعل أحاطَ ومضارعه يُحيط،...
ابن دیلمی کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ تعالیٰ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، انھوں نے فرمایا: اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا بھی، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ تعالیٰ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ تمہیں نہیں پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گیے تو ضرور جہنمیوں میں سے ہوگے۔ابن دیلمی کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن مسعود ، حذیفہ بن یمان اور زید بن ثابت رضی اللہ عنھم اجمعین کے پاس آیا تو ان سب نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم ﷺ کی مرفوع روایت بیان کی۔
عبداللہ بن فیروز دیلمی رحمہ اللہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ ان کے دل میں تقدیر کے مسئلہ میں کچھ اشکال و اشتباہ پیدا ہوگیا اور انھیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ اشکال انھیں تقدیر کے انکار تک نہ پہنچادے، چنانچہ اس اشکال کو دور کرنے کے لیے وہ اہلِ علم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے مسئلہ کا حل دریافت کرنے لگے۔ لہذا اسی طرح ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان "فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿سورہ النحل: 43۔ (پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو) پر عمل کرتے ہوئے، اپنے مشتبہ و مشکل مسائل کے بارے میں علمائے کرام سے حل دریافت کرے۔ چنانچہ ان سارے علماء نے ابن فیروز دیلمی کو یہی فتویٰ دیا کہ قضاء و قدر پر ایمان لانا لازمی ہے اور عظیم کمیت پر مبنی انفاق فی سبیل اللہ کو اس شخص سے قبول نہیں کیا جائے گا جس کا تقدیر پر ایمان نہ ہو اور جو اس حال میں مرجائے کہ تقدیر پر اس کا ایمان نہ ہو تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔