الظاهر
هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...
ابو ہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ہریالی کے زمانے میں سفر کرو تو ان اونٹوں کو زمین میں سے ان کا حق دو (یعنی گھاس چرنے دو)اور جب تم خشک سالی کے زمانے میں سفر کرو تو ان پر جلدی سفر کرو (یعنی سفر کے دوران راستہ میں تاخیر نہ کرو) اور ان کی سکت ختم ہونے سے پہلے (منزلِ مقصود تک) پہنچنے کی کوشش کرو اور اگر رات کو پڑاؤ ڈالو تو راستے سے ہٹ کر پڑاؤ ڈالو کیونکہ یہ جانوروں کے گزرنے کا راستہ اور رات کو نکلنے والے حشرات الارض کی آماجگاہ ہوتی ہے۔
حدیث میں انسان اور چوپایوں دونوں ہی کے مصالح کا خیال رکھا گیا ہے کہ نبی ﷺ نے مسافروں کو ان آداب کے ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی۔ مسافر جب کسی چوپائے مثلاً اونٹ، گدھے، خچر یا گھوڑے پر سوار ہو کر سفر کر رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ چرنے اور چلنے میں اس کی سہولت کا خیال رکھے کیوں کہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ اگر وہ ایسے وقت میں سفر کر رہا ہو جس میں کھیتی اور چارے کی کثرت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ آہستہ آہستہ سفر کرے اور جلدی نہ کرے تاکہ چوپائے اتنا چر سکیں جتنا ان کا حق ہے۔ اور جب وہ ایسے وقت میں سفر کرے جس میں کھیتی اور چارے وغیرہ کی قلت ہو تو پھر چوپائے کی طاقت کے لحاظ سے تیزی کے ساتھ سفر کرے تاکہ چوپائے کو تھکا نہ دے۔ اسی طرح نبی ﷺ نے مسافر کو حکم دیا کہ رات کو جب وہ آرام اور نیند کے لئے قیام کرے تو راستے میں پڑاؤ نہ ڈالے کیوں کہ راستے مسافروں کے جانوروں کی گزرگاہ ہیں جن پر وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔چنانچہ راستے میں پڑاؤ کر کے وہ ان کی آمد و رفت کو نہ روکے اور نہ ہی ان کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور اس ممانعت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ زہریلے کیڑے مکوڑے اور درندے رات کو راستوں میں چلتے پھرتے ہیں کیوں کہ ان پر چلنے میں سہولت ہوتی ہے اور وہ وہاں گری پڑی کھانے وغیرہ کی اشیاء کو اٹھاتے ہیں۔